پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ ادارے اربوں روپے کے خسارے پر چل رہے ہیں۔امیر اور غریب کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ جس کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ ہر سال بڑھتا ہی رہا ہے۔ مستحکم معیشت کی دو بنیادیں صنعت اور زراعت کی پیداوار زوال پذیر رہی ہے۔ ماضی کی ناکام معاشی پالیسیوں کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ پاکستان کے ایک ہاتھ میں ایٹم بم ہے تو دوسرے ہاتھ میں کشکول ہے۔ جس کو کئی بار توڑنے کا وعدہ کیا گیا مگر کوئی حکمران آج تک کشکول کو ہمیشہ کے لئے توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ ماضی کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان آج تک معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔پاکستانی معیشت جمود کا شکار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا ابھی تک اعتماد بحال نہیں کیا جا سکا۔آبادی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ کہ گروتھ کم ہوتی جارہی ہے جس کی بنا پر معاشی مستقبل مخدوش ہے۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ معاشی استحکام کے لیے لازم ہے کہ صنعت اور زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے،نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے، گورننس کو بہتر کیا جائے،کرپشن پر قابو پایا جائے اور گروتھ میں مڈل کلاس کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔سال 2021 اختتام کو پہنچا جو کہ غریب پاکستانیوں کیلئے انتہائی مشکل سال رہا۔ پورے سال ہونے والی مہنگائی اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنائے رکھی۔ اب سال نو کے آغاز پر حکومت نے منی بجٹ کی صورت میں شہریوں پر مہنگائی بم گرا دیا ہے ، کچن آئٹمز، ادویات، صنعتی و زرعی سامان، ہوٹلنگ، کمپیوٹرز، موبائل فون اور کاروں سمیت تقریباً 144 سے زائد اشیاء پر17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے 360 ارب روپے حاصل کئے جائیں گے جس کے باعث مہنگائی کا سیلاب آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔غریب پاکستانی پہلے ہی پریشانی کا شکار ہیں۔ کم اجرت اور بڑھتی مہنگائی سے کیلئے دو وقت کی روٹی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بیشتر لوگ بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ان حالات میں منی بجٹ کے اثرات سے مہنگائی کا پہلے سے بلند گراف مزید بلند ہو جائے گا۔ کورونا کے اس دور میں جبکہ آمدنیوں میں اضافہ متوقع نہیں یہ اضافی بوجھ عوام کی مالی مشکلات کو دوچند کرنے کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح بڑھنے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما بلند بانگ دعوے کرتے تھے کہ وہ ملک سے مہنگائی ، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرینگے ۔غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوشحال ہوں گے، مگر اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف اور تبدیلی کے دعویداروں نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں-روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ ہے کہ رکنے کو نہیں آرہا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کیلئے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کیلئے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کیلئے تجارت کرنا مشکل اور کسان کیلئے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے۔ بجلی ، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا ، گھی ، چینی سمیت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے-ہر آنیوالا حکمران جانے والے کو ملک کی معاشی بدحالی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور خزانہ خالی کا قصور وار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتا ہے، حکومت بھی یہی کچھ کر رہی ہے لیکن قوم کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لئے ایک انچ بھی قدم نہیں بڑھایا گیا۔عمران خان کی حکومت جس رفتار سے چل رہی ہے اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے، اور کچھ کر دکھانے کی بجائے ہر روز ایک نئی طفل تسلی کا اعلان ہوجاتا ہے ، یوں تین ساڑھے تین سالہ حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی حکمت عملی سے زیادہ نہیں۔نئے سال میں ہمیں پھر سے کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں کورونا ،معیشت کو درپیش چیلنجزصحت، تعلیم اور روزگار کے شعبے کے چیلنجز ، انصاف،قانون، پارلیمانی امور،امن وامان اور ماحولیات کے شعبے کے چیلنجز ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں کہ ان سے نمٹیں گے کیسے۔کورونا کا عفریت اب بھی دنیا بھر میں تباہی مچا رہا ہے اور پاکستان میں ایک بار پھر اس کے حملے تیز اور مہلک ہونے کے خطرات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ فروری میں کورونا کی پانچویںلہر آسکتی ہے۔بعض طبّی ماہرین کے اندازے کے مطابق آنے والے دنوں میں ایسا ممکن ہے کہ یومیہ تین تا چار ہزار نئے مریض سامنے آنے لگیں۔اقتصادی ماہرین بھی تشویش کا شکار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت شدید اندرونی اور بیرونی دباو کا شکا ر ہے ،غریب تو غریب، اب تو امیروں نے بھی کچھ آہ و بکا شروع کردی ہے۔ہمارا جاری کھاتے کا خسارہ خطرنا ک حد تک بہت بڑھ چکا ہے۔درآمدات کے مقابلے میں بر آمدات بہت کم ہیں، کرنسی کی قدر کچھ عرصے میں بہت تیزی سے کم ہوئی ہے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کار بہت ہی کم ہے۔حالاں کہ ماہرین اقتصادیات کا موقف ہے کہ ملکی ترقی پر مثبت اثرکے لیے پاکستان کو سالانہ چار تا چھہ ارب ڈالر زکی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔سرمایہ کاروں کااعتماد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی ٹیکس پالیسی مطابقت کی حامل ہو، ٹیکسوں کا موثر نظام ہو اور ایک مستحکم سیاسی ماحول رکھتا ہو۔ خاص کر ٹیکس پالیسیز کو ایک سے دوسری حکومت کے درمیان زیادہ مطابقت کا حامل ہونا چاہیے۔ انکم اور سیلز ٹیکس میں اضافے کی شکل میں تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے دولت مند طبقے کو ٹیکس کے جال میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا زرعی شعبہ جو ملکی معیشت میں اہم حصہ ڈالنے کے باوجود سب سے کم ٹیکس دیتا ہے، اس پر متناسب ٹیکس لاگو کیے جانے چاہییں۔ بجٹ کاسب سے زیادہ حصہ تعلیم و تحقیق کی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ ہونا چاہیے، ماہرین سماجیات و سیاسیات کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو درست سمت اختیار کرنی ہے، خود کو داخلی اور خارجی،دونوں محاذوںپرایک مہذب اور ذمہ دار معاشرے کے طورپر پیش کرناہے اور ترقی اور خوش حالی کی منزل حاصل کرنی ہے تو ہمیں ایک نئے کردار اور فکر کی طرف توجہ دینی ہوگی۔کیوں کہ موجودہ ریاستی نظام میں کئی سطحوں پر بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔