نیا سال آ گیا۔ میں نہ گزشتہ سال کا کچا چھٹا چھانٹنے کے لیے بیٹھا ہوں نہ آنے والے سال کے بارے میں کوئی پشین گوئی کا ارادہ ہے۔ اس بار میں نے پہلی بار اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ حرکت کی کہ ان افراد کو اکٹھا کیا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مستقبل کے اندھیروں میں نظر ڈال کر بتا سکتے ہیں کہ انہیں کیا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بقول شیکسپیئر وہ جو مستقبل کی ’’تخم خوانی‘‘ کرسکتے ہیں۔ ان میں کوئی ستارہ شناس ہوتا ہے تو کوئی علم الاعداد کا ماہر، کسی کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ تاش کے پتوں کو پھینٹ کر بتا دیں گے کہ مستقبل نے آپ کے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے۔ کئی دلچسپ اندازے ہیں جو مستقبل بینی کا دعویٰ رکھنے والے اختیار کرتے ہیں۔ ان میں اکثر سچ بھی ثابت ہوتے ہیں۔ مجھے اس کے ایک خاص معنوں میں علم ہونے پربھی کوئی شک نہیں ہے۔ بعض ایسے علوم کی نسبت تو ہمارے بزرگوں سے بھی ہے۔ جفر اور رمل ان میں شامل ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ ہمارے بعض روایتی مذہبی اداروں میں اس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میں اسے کوئی روحانیت بھی نہیں کہتا۔ مگر وہ لوگ جو روحانیت کا ادراک رکھتے ہیں، ان سے بھی ایسی باتیں منسوب ہیں جو مستقبل بینی کی ذیل میں آ سکتی ہیں۔ اس حوالے سے دنیا میں بہت سے لوگ ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں نعمت شاہ ولی تھے۔ ان کی کیا کیا باتیں ہیں جو آج بھی اہل علم کے تجزیے کا موضوع بنتی رہتی ہیں۔ امریکہ میں اردو کے ایک استاد ہیں، ایک زمانے سے شکاگو میں تھے، سی ایم نعیم صاحب، چوہدری محمد نعیم۔ لکھنئو سے ان کا تعلق ہے۔ ذاتی طور پر میرا ان سے رابطہ اپنے پیارے دوست ڈاکٹر ممتاز احمد کی وساطت سے ہوا۔ پھر کئی برس تک ان سے ایسا تعلق رہا کہ پاکستان میں ان کا میں ایک طرح سے واحد اور مستند رابطہ یا حوالہ تھا اگرچہ ان کے بہت ہی قریبی عزیز بھی یہاں تھے۔ انہوں نے ایک بہت دلچسپ مضمون لکھا تھا جس میں نعمت شاہ ولی سے لے کر ہمارے سرفراز شاہ صاحب کے بعض مکاشفات کی تشریح کی تھی کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ تاریخ کے خاص لمحوں میں ہمارے روحانی بزرگوں کو ایسے رو یا نظرکرتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ تجزیہ تھا۔ تاہم یہ تو روحانی وارداتوں کا معاملہ ہے جس کا تناظر سراسر مختلف ہوتا ہے جن میں ایک آدھ تجزیہ ممکن ہوا تو یہاں کروں گا، تاہم ایک دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہمارے دنیا داروں کو مستقبل شناسوں کے دعوئوں کے پیچھے اور ہی کچھ دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑی مشہور مستقبل شناس جین ڈکسن تھیں جس کا گزشتہ صدی کے اختتام پر خاصہ شہرہ تھا۔ ہر سال بتایا جاتا کہ ان کی فلاں فلاں پیش گوئی درست ثابت ہو چکی ہے۔ ایک سال موصوفہ کی پیش گوئی دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئی کہ اس سال فلاں فلاں اہم باتیں ہونے والی ہیں مگر ان میں کمال کی بات یہ ہو گی کہ اس سال اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر جو حملہ کرے گا اسے گویا اس برس کا ’’حاصل کلام‘‘ سمجھا جائے۔ انگریزی میں Pick of the Year لکھا تھا۔ میں کوئی ایسا وہمی نہیں ہوں مگر پاکستانی تو ہوں۔ سارا سال انتظار کرتا رہا کہ خدا کرے یہ سال خیریت سے گزر جائے۔ خود کو یہ اعتماد بھی دلاتا رہا کہ میرا خدا ان ’’کافروں‘‘ کو غلط ثابت کرے گا۔ سارا سال گزر گیا، کچھ نہ ہوا۔ یہ تو چار چھ برس بعد انکشاف ہوا کہ اسی برس اسرائیل نے پاکستانی تنصیبات پر حملے کے لیے اپنے طیارے انڈیا منتقل کردیئے تھے۔ جنرل حمید گل بتاتے تھے کہ اس کی خبر ملنے پر انہوں نے اسرائیل کو پیغام بھجوایا کہ اگر کسی مہم جوئی کی کوشش کی گئی تو یاد رکھو اسرائیل پاکستان سے دور نہیں ہے اور ہمارے نشانے پر بھی ہے۔ پھر دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا وجود باقی نہ رہے گا۔ اسرائیل کو ہنگامی طور پر اپنا یہ منصوبہ ختم کرنا پڑا۔ میں ان دنوں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا یہ بات درست ہے موصوفہ بہت سی پیش گوئیاں سی آئی اے سے پوچھ کر کرتی تھیں یا یہ کہ ان کا اسرائیلی لابی سے قریبی تعلق تھا۔ جو لوگ ان علوم کو برحق مانتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ پیش گوئی کرنے والے جھوٹ نہیں بولتے وہ کہتے ہیں کہ ان کو اس طرح کی سرگرمی نظر آتی ہو گی مگر وہ اس کی حتمی تعبیر نہ کر پاتے ہوں گے۔ ایک بڑے مزے کی بات یاد آئی۔ ایک صاحب اس قسم کے حساب کتاب کرتے ہیں۔ ادب و صحافت سے بھی تعلق ہے۔ سنجیدہ آدمی ہیں، انور فراز۔ مجھے یاد ہے، پرانی بات ہے، ایک دن کہنے لگی، بھائی سمجھ نہیں آ رہا، حساب کتاب سے یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ مارشل لا مضبوط ہوگا، دوسری طرف نہ کوئی جنگ بھی دکھائی دیتی ہے، عدالتوں کی برتری کا معاملہ نظر آتا ہے۔ دونوں میں ہم آہنگی نہیں ہو پا رہی۔ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ عدالت نے غالباً انتخابات کرائے کے لیے تین سال دیئے تھے۔ گزشتہ انتخاب ملتوی ہو گئے اور مارشل لاء لا محالہ زور پکڑ گیا۔ اس طرح میں نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات روحانی مکاشفات کو بھی سمجھنا پڑتا ہے۔ گزشتہ سال تمام مستقبل شناسوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی جیتتی دکھائی دیتی ہے مگر عمران خان وزیراعظم بنتے نظر نہیں آتے۔ ایسے میں روحانیات کے ماہرین کی بھی یہی رائے تھی اور ہے۔ اس روحانی واردات کی کیا تعبیر کی جائے۔ ماضی میں ایسی صورت حال پیدا ہوتی رہتی ہے۔ میرے محترم سرفراز شاہ صاحب کا اصرار تھا کہ نوازشریف انہیں تیسری بار وزیراعظم نظر نہیں آ رہے۔ ان کی یہ رائے مسلسل رہی ہے یعنی جب وہ وزیراعظم بن گئے تب بھی۔ اب یہ سوچا جا سکتا ہے کہ آیا نوازشریف تیسری مدت میں وزیراعظم تھے۔ بس اتنا ہی کہنا ہی کافی ہے۔ مستقبل شناس موجودہ وزیراعظم کے بارے میں اپنی رائے کی جو تاویل بھی کرنا چاہتے ہیں، وہ تو وہ جانیں تاہم روحانی وارداتوں کو میں اگر ماضی کے حوالے سے دیکھوں تو مجھے ملک کی موجودہ صورت حال سمجھ آ سکتی ہے۔ کوئی سی ایم نعیم اس کا تجزیہ کرسکیں تو مہربانی ہوگی۔ میں اس طرح کا کوئی کالم لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ جانے کیسے اس راہ پر چل پڑا۔ مستقبل شناسوں کو چھوڑیئے، تجزیہ نگاروں کی سن لیجئے۔ یہ اکیسویں صدی جب شروع ہونے والی تھی تو دنیا بھر میں دھڑا دھڑ ایسے مضامین چھپنے لگے کہ نئی صدی امن کی صدی ہوگی۔ دنیا جنگ سے نفرت کرے گی۔ مختلف ملک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے بلکہ سرحدیں اس طرح بے معنی ہو جائیں گی جسے یورپی یونین میں ہورہی ہیں۔ پھر گلوبل ازم کے ثمرات دنیا میں پھیلیں گے اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ ہوا یہ کہ جب نئی صدی کا آغاز ہوا تو نائن الیون ہوگیا۔ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ مجھے اپنا بھی ایک تجزیہ یاد ہے۔ نکسن جب دوسری بار صدر منتخب ہوئے تو بڑی محنت سے ایک مضمون تیار کیا کہ نکسن کا امریکہ کیسا ہوگا۔ خود امریکیوں کے لیے کیسا ہوگا، پاکستان کے لیے کیسا ہوگا اور دنیا کے لیے کیسا ہوگا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ واٹر گیٹ سکینڈل ہوگیا۔ الغرض ہم لمحہ موجود ہی میں جئیں تو اچھا ہے۔ آنے والے دنوں کو پڑھنے کا اعتماد بھی انسان کی اپنی بصیرت پر ہے۔ بہتر نہ ہوگا کہ ہم اپنی اس بصیرت کو عمل کی راہ دکھائیں۔ کچھ کر کے دکھائیں تو دنیا بدلے گی، وگر نہ خواب، خواب ہی رہیں گے۔ نئے سال کا سبق یہی ہے کہ کچھ کر کے دکھائیں، ماضی نے یہی سکھایا ہے اور ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔ یہ پہاڑ تب سر ہوگا جب ہم قدم بڑھائیں گے، کھڑے سوچتے رہیں گے تو کچھ بھی نہ ہوگا۔ چاہے ہمارے خواب بہت خوبصورت ہی کیوں نہ ہو۔