نکاح سنت ِ نبویﷺہے۔ جو فرد مسلم معاشرہ میں داخل ہوتا ہے اْسے شریعت ِ محمدیﷺکے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہوتا ہے۔ اْس کے لئے کاروبار، طرز ِ رہن سہن، ہمسائیوں سے برتاؤ، معاشرے کے افراد سے میل جول، حتی کہ غیر مسلم افراد کے ساتھ روابط، تجارت اور باقی معاملات میں بھی سنت ِ رسول اللہﷺ کی پیروی لازم ہے۔ اسلام میں دیگر احکامات کی طرح نکاح کا بھی حکم دیا گیا ہے جس کا پورا شرعی عمل سنت ِ نبوی ﷺ میں موجود ہے۔بطور مسلمان ہم پہ فرض ہے کہ ہم اپنے تمام تر معاملات میں قرآن و سنت سے رجوع کریں کیونکہ ہمارے تمام مذہبی، معاشی، معاشرتی، سیاسی و سماجی مسائل کا حل رہبر ِ کائناتﷺ کی سنت میں پنہاں ہے۔ پچھلے دِنوں اخبارات و ٹیلی ویژن سیکرینوں پر ایک خبر بڑے تواتر سے چلتی رہی ہے جس کے چرچے آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ خبر کے مطابق کراچی سے ایک نوعمر لڑکی کو لاہور کے ایک لڑکے سے ’محبت‘ ہوجاتی ہے۔ دونوں کے درمیان سوشل میڈیا نے رابطہ کاری کا کردار ادا کیا۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر لڑکی والدین کو بتائے بنا لاہور نکل پڑتی ہے۔ لاہور پہنچ کر وہ کسی انجان لڑکی سے موبائل مانگتی ہے اور لڑکے سے رابطہ کرتی ہے۔ بعدازاں دونوں پسند کی ’شادیْ‘ کرلیتے ہیں۔یہ کہانی کا ایک رْخ ہے۔دوسری جانب جس والدہ نے کی سالوں سے لڑکی کی پرورش کی ہوتی ہے۔ اْس بچی کو بچپن میں اپنے ہاتھوں سے کھلایا پلایا، پنگھوڑوں میں جھولے دیے ہوتے ہیں اس بیٹی کے اچانک لاپتہ ہونے پر اْسے اپنے پاؤں تلے زمین دھنستی نظر آتی ہے۔ بچی کے والد کو اہل ِ محلہ کے سامنے سبکی محسوس ہوتی ہے۔ پریشان ِ حال والدین مقامی تھانے میں ’اغوا‘ کی ایف آئی آر درج کرادیتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد لڑکی لاہور سے برآمد ہوجاتی ہے۔ لڑکی عدالت میں بیان دیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے لاہور آئی اور اپنی مرضی سے لڑکے سے شادی کی۔ یہ کہانی کا دوسرا رْخ ہے۔ کہانی کا تیسرا رْخ سوشل میڈیا نے دِکھایا۔ آئے رو ز سوشل میڈیا پر ’مرضی کے مالک‘ اس جوڑے کی کئی طرح کی تصاویر وائرل ہورہی ہیں۔ تازہ ترین تصویر میں لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ ’وِکٹری کا نشان‘ بنا کر بیٹھی ہے۔ کچھ این جی اوز اور سوشل میڈیا صارفین نے اِسے ’محبت کی جیت‘ قرار دیا ہے۔ ٹیلی ویژن کے کچھ اینکرزخصوصاََ خواتین، یوٹیوبرز اور ٹِک ٹاکرز حضرات نے اس جوڑے کے انٹرویوز کیے ہیں۔دورانِ انٹرویو ز سبھی ’محبت کے فاتحین‘ کے اس ’کارنامے‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔یہ سوال لڑکی یا لڑکے سے کسی نے نہیں کیا کہ ’کل کو تمھاری بیٹی اِ س روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا انتہائی اقدام اْٹھائے تو تمھیں کیسا محسوس ہوگا‘۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ اوسط پانچ کروڑ بچیوں کا شادیاں کم سنی میں ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال اقوام ِ متحدہ کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں اٹھارہ فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال سے کم جبکہ تیرہ فیصد بچیوں کی شادیاں تو چودہ سال کی عمر میں کردی جاتی ہیں۔ دنیا میں پچانوے فیصد کم عمر ماؤں کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کم عمری کی شادیوں میں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ گزشتہ سال یونیسیف کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھ فی صد بچیوں کی شادیاں سولہ سال کی عمر میں کردی جاتی ہیں۔ سندھ نے 2014ء میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ منظور کیا جبکہ پنجاب میں 2015ء میں ایسا ایکٹ منظورہوا لیکن اْسی ایکٹ میں کئی قانونی سْکم چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ اور آزاد جموں اینڈ کشمیر کم عمری کی شادی کے معاملے میں کئی طرح کے مذہبی، معاشرتی اور سماجی مسائل کا شکار ہیں۔ مذکورہ واقعہ کی طرز پر رونما ہونے والے واقعات کے پیچھے کئی طرح کے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ہمارا مذہب شادی کے لئے ولی(گھر کے سربراہ) کی رضا مندی کی شرط عائد کرتا ہے جس کا مقصد ہی بچی کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔ ولی کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بچی کی پرورش، تعلیم و تربیت اور بچی کی رضا مندی سے لے کر شادی تک کے معاملات میں ولی کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ہمارے ہاں عمومی طور پر بچیوں کو گھْٹن کا ماحول دیا جاتا ہے، تعلیم و تربیت سے لے کر شادیوں تک بچیوں کو فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ کسی بچی کا والدین کو چھوڑ تے ہوئے گھر سے بھاگ کر کسی اجنبی مرد سے شادی کرنا جہاں ہمارے معاشرے میں سماجی قباحت تصور کیا جاتا ہے وہیں سماج کے اوپر بھی کئی طرح کی ذمہ داریاں نہ نبھانے کا عکاس ہے۔ اگر سماج اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر رہے تو کئی طرح کی سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں جن میں گھر سے بھاگ کر کسی اجنبی مرد سے پسند کی شادی کرنا بھی شامل ہے۔ مذکورہ واقعہ میں دیکھنا ہوگا کیا ولی یا سربراہ نے اور سماج نے اپنی معاشرتی و مذہبی ذمہ داریاں پوری کیں؟ کیا ولی اپنی بچی کو کھیل کود، تعلیم، تربیت، امورِ خانہ داری، مزاح، تفریح کے معاملات میں شامل کرتا تھا؟ اگر ولی خود ہی اپنی اولاد سے بے اعتنائی برت رہا ہو تو ایک بچی کو کْلی طور پر اکیلا ذمہ دار ٹھہرانا چہ معنی دارد؟ ۔ جب تک ہم خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزریں گے تب تک اس طرح کے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنا ہمارے دین میں شامل ہی نہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے قوانین کوشریعت ِمحمدی ﷺ اور اسلامی معاشرتی قوانین کے مطابق ڈھالیں۔ یہ کسی فرد، ادارے یا کسی کا انفرادی نہیں بلکہ مجموعی طور پر یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ جسے سماجی انداز میں ہی حال کیا جانا چاہئے۔ اِ س میں جذبات، منافرت، بے راہ روی، صوبائی عصبیت کا کوئی عنصر تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ اس مسئلے کے تمام کرداروں اور سماجی اداروں کو سنجیدگی سے اِ س پر بحث کرنا چاہئے اور مل بیٹھ کر ایک نئے سماجی معاہدے کی تشکیل کرنا ہو گی۔ والدین، بہن، بھائی، اساتذہ، دوست، ہم جماعت، رشتے داروں، تعلیمی اداروں، کام کرنے کی جگہوں پر تعینات افراد حتی کہ گاہے بگاہے ہم سے ٹکرانے والوں بشمول دکانداروں، مسافروں وغیرہ سبھی کو بھرپور سنجیدگی سے اِ س پرسوچنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے واقعات ایک گھر نہیں بلکہ پورے مسلم معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔