حسب توقع تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی 353ووٹ لے کر صدر پاکستان منتخب ہو گئے ہیں اور کل حلف بھی اٹھا لیں گے ۔اس لحاظ سے عمران خان کی پارٹی نے پہلے سپیکر پھر وزارت عظمیٰ کا الیکشن اور اب صدارتی انتخاب جیت کر ہیٹ ٹرک مکمل کر لی ہے ۔ان تینوں انتخابات میں ایک قدر مشترک ہے کہ کہنے کو تو یہ ’’مشترکہ‘‘ ہے لیکن عملی طور پر منتشر ،اپوزیشن ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان سر پٹھول جاری رہی۔جس کا سب سے زیادہ نقصان حال ہی میں عام انتخابات میں شکست کھانے والی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو ہوا۔ اگر شہباز شریف کی سربراہی میں اس جماعت کے اوسان خطا نہ ہوتے تو شاید تب بھی نتائج یہی نکلتے لیکن کم از کم اپوزیشن یہ تو کہہ سکتی کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیالیکن یہاں تو روز اول سے ہی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے لیکن وہ اتنے روہانسے لگ رہے تھے کہ انھوں نے ڈٹ کر کیمپین ہی نہیں کی ۔شاید ان پر طاری طویل اقتدار کا نشہ ابھی زائل نہیںہوا تھا یا ان کی پیپلز پارٹی سے دیرینہ الرجی برقرار رہی ۔انھوں نے قومی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس میں ہی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے سردمہری کا مظاہرہ کر کے واضح کر دیا کہ مجھے آپ کے ووٹوں کی پروا نہیں ہے ۔زرداری اینڈ کمپنی نے بھی یہ کہہ کر کہ شہبازشریف ہمیں برا بھلاکہتے رہے ہیں ان کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا ۔تاہم یہ رعایت ضرور دی کہ اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا ،کچھ اسی قسم کی صورتحا ل صدارتی الیکشن کے دوران بھی دیکھنے میں آئی۔ مسلم لیگ (ن )کی طرف سے پہلے تو یہ عذرلنگ پیش کیا گیا کہ اعتزاز احسن کو امیدوار بنانے میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ جس پر پیپلز پارٹی نے واضح کیا کہ آپ نے تو باقاعدہ نامزدگی سے پہلے ہی اعتزاز احسن کی مخالفت شروع کردی تھی اوریہ جواز پیش کیاکہ انھوں نے نوازشریف اور ان کی اہلیہ پر انتہائی رکیک حملے کیے تھے اور پرویز رشید جو ایک روشن خیال سیاستدان ہیں نے تو یہ تک مطالبہ داغ دیاکہ اعتزازاحسن پہلے اڈیالہ جیل جا کر نوازشریف سے معافی مانگیں پھرغور کریں گے ۔اس پر مستزاد یہ کہ مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کے خلاف مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن کا امیدوار نامزد کر دیا ۔صدارتی انتخاب میں ووٹوں کی تقسیم کچھ اس قسم کی تھی کہ تحریک انصاف کو چند ووٹوں کی برتری حاصل تھی لہٰذا اس امکان کو قطعی طور پر رد نہیںکیا جا سکتا تھا کہ اپوزیشن کا متفقہ صدارتی امیدوار کامیاب ہو سکتا تھا لیکن وہ امیدوار فضل الرحمن نہیں ہو سکتے تھے البتہ اعتزاز احسن کی شخصیت کو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ویٹو نہ کیا جاتا تو اتفاق رائے ممکن تھا۔ اعتزاز احسن کی ملک میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے قیام کے لیے خدمات کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔وہ مسلم لیگی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد چوہدری احسن علیگ اور ان کی والدہ محترمہ دونوں نے تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا تھا ۔ اس کے باوجود قائداعظم کی نام لیوا جماعت کی نظر عنایت فضل الرحمن تک ہی محدود رہی۔ جیسا کہ بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ صدارتی امیدواروں میں اعتزاز احسن میرٹ پر سب سے آ گے تھے ۔اسی بنا پر اس قسم کی اطلاعات بھی آئیں کہ ایک مرحلے پر پاکستان تحریک انصاف بھی انھیں اپنا امیدوار نامزد کرنے کے لیے تیار تھی ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ باہمی اختلاف اور کدورتوںسے قطع نظر مشترکہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا جاتا۔اس سے جمہوریت کے لیے اچھا پیغام جاتا ۔یہ اعتراضات کہ فلاں موقع پر فلاں شخصیت نے فلاں کو گالی دی تھی جس پر مجھے جنرل ضیاء الحق کے دور میںبننے والی مشترکہ اپوزیشن ایم آر ڈی کے قیام کی تاریخ یاد آ گئی۔ 1981ء میں جب ایم آرڈی تشکیل دی جا رہی تھی تو اس میں اپوزیشن میں فریق اول پیپلزپارٹی تھی کیونکہ اس وقت میاں نوازشریف تو جنرل ضیاء الحق کی گود میں بیٹھے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنہیں صرف چند برس قبل ہی جنرل ضیاء الحق نے تختہ دار پر لٹکایا تھا کی بیوہ محترمہ نصرت بھٹو نے روتے ہوئے ایم آر ڈی کے علامیہ پر دستخط کئے تھے۔ واضح رہے کہ ایم آر ڈی میں شامل نوابزادہ نصراللہ خان،شیرباز مزاری ،اصغر خان سمیت قومی اتحاد میں شامل اکثر رہنما وہی تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے اور بعدازاں ان کی پھانسی میں شریک تھے۔ جمہوریت کے وسیع تر مفاد کی خاطر نصرت بھٹو نے ایسی شخصیات کے ساتھ بیٹھنا اور مل کر جدوجہد کرنا گوارا کیا جو ان کے شوہر کے جانی دشمن تھے ۔اس کے مقابلے میں چوہدری اعتزاز احسن نے میاں برادران کے بارے میں کیا کہا یا میاں شہبازشریف نے آصف زرداری کے بارے میں کیا ریمارکس دئیے، کیا معنی رکھتے تھے۔ ان کے برعکس عمران خان نے وزیراعظم بننے کے لیے زیادہ سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا، انھوں نے طوہا ً وکرہا ً ایسے لوگوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی جن کو ماضی میں وہ للکارتے رہے تھے۔ جہاں تک عارف علوی کا تعلق ہے وہ اس منصب کے لیے موزوں شخصیت ہیں۔ ان کا ماضی صاف وشفاف ہے اور سیاست میں کردار بھی بے داغ ہے ۔لیکن صدر کے آئین میں دئیے گئے اختیارات کے حوالے سے ان کا رول محدود ہے ۔یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ ان کے پیش رو ممنون حسین نے خاصی عزت اور وقارکے ساتھ اپنے عہدے کی پانچ سالہ مدت پوری کی اس کے باوجود کہ وہ میاں نوازشریف کے نامزد کردہ تھے ۔انھوں نے 2 برس پہلے کراچی میں تاجروں کی ایک نشست میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:’’یہ پاناما لیکس کا معاملہ قدرت نے اٹھایا ہے۔آپ دیکھیں گے بہت سارے جو لوگ اطمینان سے بیٹھے ہیں، جوکہہ رہے ہم نے پکا انتظام کر لیا ہے، ان کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ دیکھئے گا کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے، کرپشن کے کچھ درجات ہیں کچھ زیادہ کچھ نارمل اور کچھ ایکسٹرا آرڈنری کرپٹ ہوتے ہیں کبھی آپ ان کے چہرے غور سے دیکھئے گا منحوس چہرے ہوتے ہیں، ان کے چہروں پر نحوست برس رہی ہوتی ہے۔ اللہ کی لعنت ان چہروں پر نمایاں ہوتی ہے‘‘۔گزشتہ ماہ انگلستان میں ڈاکٹروں کی ایک تقریب میں ان کا فرمانا تھا: ’’میں ہمیشہ سے احتساب کا قائل رہا ہوں، پاکستان میں جو بدعنوانی ہوئی ہے، یہ اللہ کا قانون ہے کہ آدمی کچھ دن بچتا ہے اور پھر پکڑا جاتا ہے‘‘۔ان بیانات کی روشنی میںصدر مملکت ممنون حسین نے بالواسطہ طور پر نوازشریف کی ’پاناما گیٹ ‘ کے حوالے سے مخالفت کر کے خود کو سرخرو کر لیا۔بعض لوگ آصف زرداری کے دور صدارت کی مثال دیتے ہیں جس دوران وہ انتہائی فعال تھے لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ آصف زرداری پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بھی تھے اور اپنے نامزد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ذریعے ریموٹ کنٹرول سے بلکہ بعض اوقات براہ راست کلیدی فیصلے خود کرتے تھے ۔ جیساکہ عارف علوی نے خود کہا کہ آ ئینی طور پر صدر کسی پارٹی کا نمائندہ نہیں ہوتا ایک انتہائی فعال اور سرگرم وزیراعظم کے ہوتے ہوئے اپنے آئین میں دیئے گئے اختیارات کے مطابق ہی کام کرسکیں گے ۔بہرحال نومنتخب صدر مملکت عارف علوی کو نیا منصب مبارک ہو ۔