احتساب کا معاملہ کافی گھمبیر سا ہو گیا ہے اور اس عمل کے سب سے بڑے ایوان یعنی نیب کے بارے میں آج کل بہت تنقید بھی کی جا رہی ہے اور صفائیاں بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ حکومت کی پالیسی تو بڑی واضح ہے کہ کسی چور کو نہیں چھوڑنا ہے مگر چوروں کو پکڑنے والے اور جیل بھیجنے والے جب خود چوروں کو چھوڑنا شروع کر دیں تو حکومت صرف آنسو بہاتی ہی رہ جاتی ہے۔ لیکن خود نیب کا کیا احوال ہے اس پر بھی غور ضروری ہے۔ نیب کے کرتا دھرتا جناب جاوید اقبال بھی آج کل میڈیا پرہیں اور اپنے ادارے کے امیج پر لگتا ہے زیادہ توجہ دے رہے ہیں، تقریباً ایک بڑی تقریر ہر مہینے ضرور کرتے ہیں جس میں دہراتے ہیں کہ وہ بالکل غیر جانبدارانہ طریقے سے کام کر رہے ہیں اور کسی کو نہ معاف کریں گے نہ ہی نشانہ بنائیں گے۔ جسٹس جاوید اقبال کو 2017ء اکتوبر میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے مل کر چنا تھا۔ انہوں نے 10اکتوبر 2017ء کو حلف اٹھایا اور چار سال تک یعنی 2021ء تک وہ چیئرمین رہیں گے۔ وہ ایک PCOپر حلف اٹھانے والے جج ہیں لیکن انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف بھی فیصلے دیے۔ انہوں نے ایبٹ آباد کمیشن کی 700صفحات کی رپورٹ بھی مرتب کی اور خورشید شاہ نے ان کا نام تجویزکرتے وقت کہا تھا کہ وہ اچھی شہرت کے حامل جج ہیں۔ عمران خان اور PTIان کی تعیناتی پر زیادہ خوش نہیں تھے اور شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ خود عمران خان نے کہا کہ وہ جاوید اقبال صاحب کے کام کو غور سے دیکھیں گے اور کڑی نظر رکھیں گے کہ وہ غیر جانبدارانہ احتساب کرتے ہیں یا نہیں۔ اپنی کارکردگی کو بتاتے ہوئے چیئرمین نیب نے 5دسمبر کو کہا کہ دو سال میں اب تک 54,344شکایات موصول ہوئی ہیں اور 630ریفرنس دائر کئے گئے ہیں اور 73ارب روپے وصول کئے گئے ہیں۔ کل ملا کر 1270کرپشن کے ریفرنس داخل ہوئے اور 910ارب کی وصولی کے کیس داخل ہوئے۔ 5دسمبر کو ہی انہوں نے فرمایا کہ اب میگا کیس یعنی بڑے بڑے کیس حل کرنا اول ترجیح ہے۔ مگر یہ سب دیکھنے کے بعد حال ہی میں جاوید اقبال صاحب کے تین بیانات ایسے آئے کہ نیب پر سوالات کی بوچھاڑ ہو گئی۔ دو مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ اب ’’ہوا کے رخ بدل رہے ہیں‘‘ اور ایک بار ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ اگر حکومت کے خلاف کیس کھولے گئے تو شاید حکومت ہی گر جائے۔ پھر یہ بھی جناب نے فرمایا کہ 30سال حکومت کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور 15مہینے کی حکومت میں فرق ہونا چاہیے۔ ان بیانات سے تو لگا کہ اندرون خانہ حالات دگرگوں ہیں۔ ہوائوں کے رخ بدلنے کا کیا مطلب نکالنا چاہیے۔میرے خیال میں یہ بات کہہ کر اور دہرا کر جاوید اقبال صاحب نے اپنی پوزیشن کمزور کی ہے۔ کیا پہلے ہوائوں کے رخ غلط سمت میں تھے یا آپ کے کنٹرول سے باہر تھے اور اگر ایسا نہیں تھا تو اب کون ہوائوں کے رخ بدلنے کوشش کر رہا ہے اور ایسی کوشش کہ آپ اعلانیہ مان رہے ہیں۔ شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ آج کل ان کے ادارے پر بہت تنقید ہو رہی ہے اور خاص کر ان لوگوں اور لیڈروں کی طرف سے جنہوں نے انہیں اس منصب پر بٹھایا۔ ستم ظریفی یہ کہ اس وقت کے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف دونوں ہی آج نیب کی گرفت میں ہیں اور ان کے کیس کھل گئے ہیں۔ تو یہ بات تو نیب کے چیئرمین کے حق میں جائے گی کہ جن لوگوں نے انہیں دوسروں پر فوقیت دے کر عہدے پر بٹھایا وہ بھی ان کی گرفت سے نہیں بچ سکے۔ مگر نیب چاہے جتنی کوشش کر لے اور اپنی تعریفیں خود کر لے سوالات کے جوابات تو دینے پڑیں گے کیونکہ اس کی کارکردگی کچھ اس طرح کے خول میں چھپی ہے کہ کوئی ایک اصول اور سب کے لئے ایک پیمانہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ مثلاً بے شمار لوگ نیب نے گرفتار کر لئے مگر آج تک کوئی ریفرنس اور کیس تیار نہیں ہوا۔ جو کیس عدالتوں کو بھیجے بھی گئے وہ اتنے کمزور اور قانون سے مبرا تھے کہ عدالتیں نہ صرف ملزموں کی ضمانتیں منظور کر رہی ہیں بلکہ کئی لیڈر تو بری بھی ہو گئے۔ کیا نیب بتا سکتی ہے کہ کس لیڈر کے خلاف انہوں نے ایسا تگڑا کیس بنایا کہ وہ نہ صرف جیل گیا بلکہ عدالتوں نے اپیلوں کو بھی مسترد کر کے سزا پوری کرنے کے احکام دیے۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ سارے بڑے بڑے چور ڈاکو جن پر اربوں کھربوں کے الزام لگائے گئے وہ ابھی تک اسی طرح مزے کر رہے ہیں جیسے وہ پہلے کرتے تھے۔ کیا یہ ایک مذاق نہیں بنا دنیا بھر میں کہ اسمبلی کے سپیکر کو قید کیا گیا پھر اتنا کمزور کیس بنایا گیا کہ ان کو اسمبلی کی صدارت کا بھی اعزاز برقرار رکھا گیا اور ان کے چیمبر کو ایک سب جیل بنا کر انہیں ہر طرح کی سہولت دی گئی۔ کیا چوروں اور بڑے بڑے لٹیروں کو اس طرح کی سہولتیں دنیا کے کسی اور ملک میں بھی موجود ہیں۔ کیا نیب کی غفلت نہیں کہ چوری ڈاکہ اب ایک معزز پیشہ بنتا جا رہا ہے اور پولیس اور جیل کا ڈر تقریباً ختم ہو گیا ہے یا حکمران طبقہ تو بالکل اس کی فکر نہیں کرتا۔ تو کیا نیب خود قانون کا مذاق اڑانے والوں کا معاون نہیں بن رہا۔ اسی طرح جب چیئرمین نیب یہ کہتے ہیں کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے تو کیا وہ اب موجودہ حکومت پر کیس جلدی جلدی بنائیں گے۔ ان پر دبائو تو نظر آ رہا ہے کیونکہ جب بھی نعرہ لگتا ہے کہ حکومت اور نیب کا گٹھ جوڑ ہے تو چیئرمین صاحب تقریر کرنے تشریف لے آتے ہیں۔ بلکہ میں حیران ہوا کہ اکتوبر میں جناب جاوید اقبال ایک میڈیکل کالج تشریف لے گئے اور وہاں اپنی غیر جانبداری پر لیکچر دے ڈالا۔ اتنا دبائو ان پر کیوں ہے اور وہ اتنے حساس کیوں دکھائی دے رہے ہیں۔ گٹھ جوڑ تو میرے خیال میں بالکل نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے لوگ وہ اعلانات کرتے نظر آ رہے ہیں جو صرف نیب کر سکتی ہے اور حال ہی میں جو برطانیہ میں 40ارب واپس کرنے کا اعلان ہوا تو اس میں تو نیب کہیں نظر نہیں آئی۔ لگتا یہ ہے کہ نیب نے اپنی استطاعت اور Capacityسے زیادہ معاملات میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اگر اس کے پاس اتنے قابل اور اچھے لوگ اور افسر نہیں ہیں تو اس کی حکمت عملی بالکل مختلف ہونی چاہیے تھی۔ کسی بھی بڑے کیس میں جہاں بے شمار الزامات اور بے انتہا لوٹ مار کے شواہد موجود ہوں وہاں ضروری نہیں تھا کہ نیب سارے کیس ایک ساتھ تیار کرے اور سارے ایک ساتھ عدالتوں میں لے جائے۔ ایک دو ٹھوس اور تگڑے کیس بنا کر عدالت میں ثابت کریں اور بڑے چوروں کو ٹھکانے لگائیں اور باقی کیس وہ جیل میں سزا کاٹتے ہوئے ہی بھگتیں۔ سارا کام ایک ساتھ کرنا اور ایک دو بھی ایسے کیس تیار نہ کرنا کہ فوراً سزا ہو اور ملزم مجرم بن جائے ایک بڑی ناکامی ہے، اسی لئے لوگ نیب پر کڑی تنقید کر رہے ہیں مگر نیب بجائے اپنی کارکردگی سے جواب دے صرف تقریروں اور بیانات سے لالی پاپ دیے جا رہے ہیں۔ اس رفتار سے اور جس طرح عدالتیں ملزموں کو رہا کر رہی ہیں اس سے ایک منفی تاثر نظر آنے لگا ہے۔ نیب کو فوری اپنا کام اور پروفیشنل حکمت عملی بدلنی ہو گی۔ ورنہ آخر میں وہی ہو گا کہ زرداری صاحب روز کہیں گے کہ میں 11سال جیل کاٹ آیا مگر ایک کیس میں بھی سزا نہیں ہوئی۔ ابھی کالم ختم نہیں ہوا تھا کہ لاہور کے ہسپتال کا واقعہ ہو گیا۔ میرے خیال میں یہ عمران خان کی حکومت اور پنجاب کا سب سے بڑا امتحان ہے اگر حکومت اپنی اور ریاست کی حکمرانی کو قائم نہ کر سکی اور لے دے کر معاملہ دبا دیا گیا تو یہ صرف وزیر اعظم ہی نہیں پورے جمہوری نظام کی شکست ہو گی اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہمارا نظام نہ صرف دھڑام سے گر گیا ہے بلکہ کوئی اسے اٹھانے والا بھی نہیں بچا۔ کیا ہم واقعی ایک ناکام ریاست ہو گئے۔