اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز سے ہماری پرانی یاداللہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تقرری اس ادارے کے شایان شان ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحقیق و تصنیف کے آدمی ہیں اور مسالک سے ماورا ہیں۔ دلیل سے بات کرتے ہیں اور اگر دلیل سے ان کی رائے سے اختلاف کیا جائے تو وہ کسی ضد اور انا پرستی سے کام بھی نہیں لیتے۔ دو روز قبل میں نے انہیں نیب قانون کے بارے میں حق گوئی اور جرأت مندانہ سفارشات مرتب کرنے پر مبارکباد دی تو ڈاکٹر صاحب نے نہایت عاجز و انکساری سے جواب دیا کہ ہم نے باہمی مشاورت سے اسلامی شرع و آئین پاکستان کی روشنی میں سفارشات پیش کر دی ہیں۔ ہمارے وفاقی وزیر جناب فواد چودھری کو دنیا کے جملہ علوم و امور کے بارے میں جو حق الیقین حاصل ہے وہ قابل رشک ہے۔ معاملہ رویت ہلال کا ہو یا مسئلہ تزویراتی عالمی سیاست کا ہو یا بات افلاک میں پھیلی ہوئی اربوں کہکشائوں میں زندگی کی نوعیت کے بارے میں یا پھر اسلامی نظریاتی کونسل کی نیب کے موضوع پر شرع اسلامی کی روشنی میں دی جانے والی سفارشات ہوں، جناب وزیر موصوف جو بات کہیں گے لاجواب کہیں گے۔ جب کبھی جناب فواد چودھری کے حتمی نوعیت کے ارشادات سنتا تو مجھے سمر سٹ مام کی سٹوریMr know allیاد آ جاتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے باہمی مشاورت سے نیب آرڈی ننس کی تین دفعات کو غیر اسلامی غیر شرعی اور آئین کی دفعہ (1)227سے متصادم قرار دیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ نیب قوانین کے مطابق بے گناہی ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے جبکہ اسلامی شرع کے مطابق الزام ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔ نیب کے قانون میں پلی بارگیس کی اجازت کو بھی کونسل نے خلاف اسلام قرار دیا ہے اسی طرح وعدہ معاف گواہ کی گنجائش بھی اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس جائزے کے مطابق نیب قانون میں حالیہ ترامیم بھی امتیازی نوعیت کی ہیں جن کے مطابق یہ احتسابی ادارہ تاجروں اور بیورو کریسی کے افسروں کی کرپشن پر گرفت نہیں کر سکے گا اسی طرح جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کو ہتھکڑی پہنانا اور ملزم کو بغیر مقدمہ کے لمبے عرصے تک قید رکھنا اسلامی اصول ‘ تکریم انسانیت اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ان دفعات کے بارے میں اب تک حکومت کے کسی نمائندے کی طرف سے کوئی ٹھوس علمی یا دینی محاکمہ سامنے نہیں آیا۔ یہاں اسلامی اصول انصاف کا یہ بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاملہ بظاہر کتنا ہی حساس نوعیت کا کیوں نہ ہو اسلامی ریاست کے شہری کو دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کسی بھی صورت میں ساقط نہیں کئے جا سکتے۔ فقہ اسلامی پر غور و فکر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلام میں بعض قوانین تو آفاقی و دائمی ہیں مگر بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اسلامی قانون کی تشریح نو کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ علامہ اقبال کو جس چیز نے مولانا مودودی کا ہم خیال بنا دیا وہ اسلامی قانون کی تشکیل جدید کا موضوع تھا۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کے ایما پر سید نذیر نیازی نے مولانا مودودی کے ساتھ خط کتابت کی تھی۔ سید نذیر نیازی کے ایک خط میں مولانا مودودی نے تفصیلی جواب جولائی 1937ء میں تحریر کیا تھا۔ اس جواب کے یہ آخری دو جملے بہت اہم ہیں۔ علامہ اقبال کے ساتھ عمرانیات اسلامی کی تشکیل جدید میں حصہ لینا میرے لئے موجب سعادت ہے۔ میں ہر ممکن خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ مگر اس سلسلے میں کسی مالی معاوضے کی مجھے ضرورت نہیں۔ بعدازاں مولانا علامہ کے مشن کی تکمیل کے لئے حیدر دکن سے دارالاسلام پٹھان کوٹ منتقل ہو گئے تھے۔اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے کی تاریخ اسلامی میں اکثر ضرورت محسوس کی گئی۔ اسی لئے 1973ء کے آئین میں نہایت نیک نیتی کے ساتھ اس ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ قانون سازی کے عمل میں اسلامی کونسل سفارشات مرتب کر کے پارلیمنٹ کو پیش کرے گی اور پارلیمنٹ ان کی توثیق کرتی رہے گی تاکہ دور جدید کے جمہوری تقاضوں کی تکمیل بھی ہوتی رہے اور کوئی خلاف اسلامی ضابطہ وجود میں نہ آ سکے۔ اسلام کا اصول عدل و انصاف بڑا واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں کوئی اشکال نہیں۔ اس اصول کے مطابق اسلامی ریاست کا ہر فرد عدالت کے سامنے جوابدہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خود ریاست مدینہ کی عدالت میں خلیفہ سے لے کر عام شہری تک پیش ہوتے تھے۔ ایک عام شہری کا یہ استحقاق تھا کہ وہ خلیفہ وقت کے خلاف عدالت میں جائے اور اپنا مقدمہ پیش کرے۔ کسی فرد یا کسی مخصوص طبقے یا ادارے کو کسی نوعیت کی کوئی امتیازی جھوٹ ہرگز نہ دی جاتی تھی۔ اس لئے اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب کے آرڈی ننس میں لائے جانے والی امتیازی ترامیم جن کے مطابق نیب میں تاجروں اور حکومتی افسروں کو نہیں طلب کیا جا سکے گا‘ کو خلاف شرع قرار دیا ہے۔ اکثر علمائے کرام کی رائے میں بھی اسلامی عدالت سے ہٹ کر کسی ایسے ادارے کا قیام خلاف اسلام ہے کہ جو شرع کی طرف سے دیے گئے بنیادی انسانی حقوق ساقط یا معطل کر کے مقدمات قائم کرے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے میرے ساتھ مکالمے میں ایک معاملے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک اہم نکتہ اٹھایا تھا جسے میڈیا نے اجاگر نہیں کیا۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا تھا کہ اسلام کا اصول احتساب یہ ہے کہ بدعنوانی کا قدم قدم پر سدباب کیا جائے نہ کہ پہلے کرپشن ہونے دی جائے اور پھر اس پر گرفت کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی بات کو چند روز پہلے کی ایک خبر سے خوب سمجھا جا سکتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ احتساب کے حوالے سے کوئی بھی قانون سازی کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو سامنے رکھیں تاکہ آئین پاکستان سے متصادم کوئی قانون وجود میں نہ آ سکے۔