اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے بدعنوانی کے مبینہ ملزم کے ضمانت کے مقدمے کی سماعت کے دوران انکوائری کے مرحلے کے دوران ملزمان کی گرفتاریوں پر سوال اٹھایا اور آبزرویشن دی ہے کہ شواہد ملنے کے بعد ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا؟۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب کے ملزم فیصل کامران قریشی کی درخواست ضمانت پر سماعت کی تو جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس د یتے ہوئے کہا کہ نیب ملزمان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتا ہے جبکہ ملزم کی گرفتاری کے بعد گواہ اور ثبوت تلاش کئے جاتے ہیں، ساری کارروائی اور تحقیقات مکمل کرکے گرفتار کیوں نہیں کرتا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے معاملات میں جلدی کیوں نہیں کرتا؟۔جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ ، کسی کو سزا دینا ہے تو دے دیں اور اگر کسی کو پھانسی لگانا ہے تو لگا دیں لیکن پہلے ملزم کو گرفتار کرکے بعد میں ثبوت تلاش کرنے سے سوال اٹھتے ہیں۔ نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری ریکارڈ میں ٹمپرنگ کے خدشہ کے پیش نظر کی جاتی ہے ، ملزم فیصل کامران نے اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے نام پرلوگوں کے ساتھ فراڈ کیا، ملزم کے خلاف ریفرنس دائر کردیا ہے ۔ملزم کے وکیل نے کہاکہ ان کے موکل کے ذمہ رقم ادا کر دی گئی ہے ۔عدالت نے استدعا منظور کرکے درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔دریں اثناعدالت عظمٰی نے سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی ہاوسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی مزید سماعت نو جنوری تک ملتوی کر دی ہے ۔ اسلام آباد کے سیکٹر آئی 14 کے متاثرین کے وکیل فیصل نقوی نے لاہور سے وڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیئے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں وہ آرڈیننس دکھائیں جس کے تحت سی ڈی اے زمین انکوائری کرکے تیسری پارٹی کو دے سکتا ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سی ڈی اے کا زمین ایکوائر کرنے کا طریقہ کار کیا ہے ؟سی ڈی اے نے میٹرو بس کے لیے زمین کیسے حاصل کی؟ فا ضل وکیل نے کہا کہ میٹرو بس کے لیے زمین ضلعی انتظامیہ نے حاصل کی تھی۔ عدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔