ایک دفعہ پھر نیب کے قانون میں تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔پیپلز پارٹی اس میں پیش پیش ہے کیونکہ جب سے احتساب کا ڈول ڈالا گیا پیپلز پارٹی سب سے زیادہ مقدمات کا سامنا کرتی رہی ہے۔اس لئے سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے اس قانون میں تبدیلی کی تجویز بھی دی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی پریشر میں تھی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار میں۔ حکومتی جماعت نے خوب مزے لئے بلکہ پیپلز پارٹی کے خلاف احتساب کے عمل کو وہیں سے شروع کیا جہاں وہ 1999ء میں جنرل مشرف کے مارشل لاء کے وقت چھوڑ کر گئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے بہت زور لگایا کی کسی طرح نواز شریف اس قانون میں تبدیلی پر مان جائیں لیکن فطرتاً میاں نواز شریف اپنے سیاسی اور تلخ تاریخی تجربات سے سبق سیکھنے کے کبھی عادی نہیں رہے۔ جب مشکل پڑتی ہے تو کمپرومائز کر لیتے ہیں اور یہ اتنا کامیاب تجربہ رہا ہے کہ وہ اگلے کمپرومائز تک ہر وہ کام کرتے ہیں جسکے نتیجے میں وہ گھوم کر وہیں پہنچ جاتے جہاں12اکتوبر 1999ء کو پہنچے تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حالیہ ادوار میں نیب کا ہونا نہ ہونا برابر تھا لیکن پانامہ لیکس کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو کو بادل نا خواستہ کرپشن کے ریفرنس پر کا م کر نا پڑا کیونکہ اس وقت کے چئیرمین نیب قمر زمان چوہدری نے سپریم کورٹ کے سامنے صاف انکار کر دیا تھا کہ وہ حدیبیہ پیپرز مل کے مقدمے میں اپیل دائر نہیں کرینگے جس پر سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ ہمارے لئے نیب آج فوت ہو گیا ہے۔ اسکے بعد سپریم کورٹ نے یہ ذمہ داری خودسنبھالی اور پانامہ کے مقدمے کے فیصلے کے ساتھ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس نیب کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ اس بارے میںمشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ریفرنس تیار کئے جائیں۔ لیکن نیب نے پھرڈنڈی ماری اور جے آئی ٹی کی رپورٹ اور مزید تکنیکی معاملات پر غور کئے بغیر بد دلی سے ریفرنس دائر کر دئیے گئے۔ اسکے باوجودبھی ریکارڈ پر اتنا مواد موجود تھا کہ احتساب عدالت کو میاں نواز شریف انکی بیٹی اور داماد کو سزا دینی پڑی۔ اسی دوران جب نیب کے سربراہ تبدیل ہوئے اور نئے چئیر مین جسٹس(ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے اختیارات کا استعمال کرنے کی کوشش کی تو مسلم لیگ (ن) جو اس وقت حکومت میں تھی، نے نیب کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ نیب کے ناخن تراشنے کی باتیں ہونے لگیں اور اس بات پر تاسّف کا اظہار شروع کیا کہ پیپلز پارٹی کا کہنا مانتے ہوئے ہمیں نیب کے قانون میں ترمیم کر دینی چاہئے تھی۔ جس قسم کی ترامیم تجویز کی جا رہی ہیں اس سے تو بہتر ہے کہ وقت ضائع کئے بغیر ایک ترمیم کے ذریعے نیب کے قانون کو ختم ہی کر دیا جائے۔نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔ ماضی کی طرف دیکھیں تو ہمارے ہاں قومی لیڈرشپ مسلسل کرپشن کے الزامات کی زد میں رہی ہے۔ کچھ کیخلاف الزامات کی صداقت پر انکے حمایتی بھی کسی حد تک یقین کر لیتے ہیں لیکن اس بنیاد پر وہ نہ تو اپنے لیڈر کی نااہلی چاہتے ہیں اور نہ انکی حمایت سے دست بردار ہونے کو تیار ہوتے ہیں۔ دیگر ممالک میں جہاں جمہوریت بہت مضبوط اور معتبر ہے وہاں بھی کرپشن کے الزامات آئے دن کسی نہ کسی حکومتی عہدیدار کے بارے میں سامنے آتے ہیں اور اکثر ایسے الزام کا نشانہ بننے والے لوگ عہدے سے دستبردار ہو جاتے ہیں یا انہیں ہٹا دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کرپشن کے الزامات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔ لیکن بات پھر سیاسی قائدین کے حمایتوں کے اعتماد کی ہے جو بحر حال بد عنوانی جیسے الزام کی بنیاد پر اپنے خیالات اور ہمدردی تبدیل نہیں کرتے بلکہ ہر الزام کے بعد اس بات پر ان کا یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ انکا لیڈر ملک کی قسمت بدلنے ہی والا تھا کہ اسے حکومت سے سازش کے ذریعے نکال دیا گیا۔بلکہ کرپشن کے الزامات پر جیل جانے والے اور مقدمات میں سالہا سال پیشیاں بھگتنے کے بعد تکنیکی بنیادوں پر بری ہونے والے اس کو تمغہء جمہوریت سمجھتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے اپنے بے لاگ احتساب اور پھر سرخرو ہونے کے قصے سنا کر اپنے جیالوں کا لہو گرماتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی دراز ہو چلاتھاکہ پانامہ لیکس اور پھر جعلی اکائونٹس کے معاملات نے منظر ہی تبدیل کر دیا۔ کرپشن کے حوالے سے کچھ سنجیدہ کام اور مقدمات شروع ہوئے کچھ منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں اور ایک بڑی تعداد میں مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف بجا طور پر پانامہ کو ہنگامہ بنانے کی دعویدار ہے اور یہیں پر بس نہیں کی بلکہ وزیر اعظم اٹھتے بیٹھتے کرپشن کے خاتمے کا ورد کرتے ہیں اور کسی ڈاکو یا چور کو نہ چھوڑنے کے ساتھ کسی قسم کا این آر او نہ دینے کا مسلسل اعلان کئے جا رہے ہیں۔گزشتہ روز چین میں دوسرے ون روڈ، ون بیلٹ فورم سے خطاب میں انہوں نے پھر واضح کیا کہ پاکستان جلد وائٹ کالر کرائم سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔ جس کا فائدہ ان لوگوں کو ہو جو بقول عمران خان ملک کو اس حال میں پہنچانے کے ذمہ دار انہوں نے کرپشن کے خلاف بین الاقوامی کوشش کے لئے بھی زور دیا کیونکہ انکے بقول وائٹ کالر کرائم سے ترقی پزیر ملکوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پہلے دن سے کرپشن کے حوالے سے جس قدر مستقل مزاجی سے کام کر رہے ہیں اس سے تو کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی کہ نیب کے قانون میں ایسی تبدیلی ہو سکے گی ۔جس کا فائدہ ان لوگوں کو ہو جو بقول عمران خان ملک کو اس حال میں پہنچانے کے ذمہ دارہیں۔البتہ نیب کے قانون اور نیب کو مزید مضبوط بنانے اور اسے آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر اس کی ساکھ بہتر بنانے میں ضرور مدد کر رہے ہیں۔جس کی واضح مثال نیب کی وہ تحقیقات ہیں جو حکومتی عہدیداروں کے خلاف ہو رہی ہیں۔ ماضی کی طرح صرف سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے لئے کاروائی نہیں ہو رہی۔