پنجاب کے جس علاقے سے چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال کے آبائو اجداد کا تعلق ہے ہم بھی وہاں کے رہنے والے ہیں۔ اس علاقے میں یہ اکھان بہت مشہور ہے کہ ’’ددھیاں دھیانیاں سانجھیاں ہوندیاں نے‘‘ یعنی بہو بیٹیوں کی عزت و تکریم سب پر واجب ہوتی ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی بیمار بیگم نصرت شہباز اور ان کی دو صاحبزادیوں کی نیب میں طلبی کے احکامات منسوخ کیے تو میڈیا و سوشل میڈیا پر خیالی گھوڑے دور دور تک دوڑائے گئے، کچھ تجزیہ کاروں نے اسے نیب کی کمزوری پر معمول کیا، کچھ خواتین و حضرات نے سیاسی دبائو کی تھیوری پیش کی اور کچھ نے اسے کوئی غیبی اشارہ قرار دیا تا ہم کچھ ثقہ ذرائع سے جو بات مجھ تک پہنچی وہ یہ تھی کہ جب چیئرمین کے حالیہ دورے کے دوران نیب آفس لاہور میں شریف خاندان کی خواتین کو جاری کردہ نوٹسز اور ان نوٹسز کو گھروں میں پہنچانے کا انداز زیرِبحث آیا تو چیئرمین نے محسوس کیا کہ اس معاملے میں اوور ڈوئنگ ہوئی ہے۔ اگرچہ کرپشن کا خاتمہ چیئرمین نیب کی اولین ترجیح ہے مگر وہ ہر قیمت پر چادر اور چار دیواری کا احترام ملحوظِ خاطر رکھنا چاہتے ہیں۔ بس اتنی سی بات تھی جس کا افسانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ ’’بس اتنی سی بات‘‘ بھی اپنی جگہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ سنگ برداروں کے اس دورِ پرآشوب میں جناب چیئرمین کی شدتِ احساس بڑی غنیمت ہے۔ ہمارا اپنا تعلق بھی ایک بزنس فیملی سے ہے اس لیے ہمیں معلوم ہے کہ بعض اوقات بیماری گھریلو خواتین کو معلوم بھی نہیں ہوتا مگر کاروباری ضروریات اور ٹیکسوں کی چھوٹ کے لیے عورتوں کے نام کاغذات میں درج کروا دیئے جاتے ہیں۔ البتہ ان خواتین کا معاملہ مختلف ہے جو سیاست و تجارت میں خود پیش پیش ہوتی ہیں۔ ساری دنیا میں چین سے لے کر امریکہ تک کرپشن کے خلاف ایک روٹین معاملے کے طور پر عدالتوں اور متعلقہ اداروں میں مقدمات چلتے اور دیگر کاروبار مملکت و تجارت اپنی ڈگر پر رواں دواں رہتا ہے مگر کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت اپنے سارے کام چھوڑ کر، اپنی ترقیاتی اور فلاحی سکیمیں ترک کر کے اور انتخاب کے دوران عوام سے کیے گئے اپنے وعدے پس پشت ڈال کر صرف او رصرف کرپشن کرپشن کا راگ الاپنے لگے اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر اطلاعات حتیٰ کہ عام وزراء تک سب اپنی کارکردگی کا حساب کتاب دینے کی بجائے کرپشن کو تہ تیغ کرنے کے لیے شب و روز شعلہ افشانی سے کام لیتے رہیں۔ میڈیا بھی قومی معاملات اور عوامی مسائل کی آگہی اور ان کے حل کے بجائے صرف کرپشن کی چٹ پٹی کہانی سنانے پر زیادہ وقت صرف کر رہا ہے اور سوشل میڈیا پر تو دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ شب و روز کی اس حکومتی گولہ باری اور نیب کے بعض علاقائی دفاتر کی ’’شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری‘‘ کے شوق میں ایسے اقدامات بھی کیے گئے جس بنا پر ایک طرف بیورو کریسی خوفزدہ ہو گئی اور دوسری طرف بزنس برادری سہم گئی۔ گزشتہ روز بیورو کریسی کے خستہ شکستہ اعتماد کی تعمیر نو کے لیے خود جناب چیئرمین کو اعلیٰ افسران سے لاہور میں براہِ راست خطاب کرنا پڑا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ بیورو کریسی بلاخوف و خطر کام کرے، ہتھکڑی نہیں لگے گی، گرفتاری صرف میری اجازت سے ہو گی۔ اس میں بین السطور میسج یہ تھا کہ اب یہ نہیں ہو گا کہ نیب جسے چاہے گی اسے بلا لے گی، جسے چاہے گی اسے اٹھا لے گی اور جسے چاہے گی اس کی توہین کر دے گی۔ اس موقعے پر چیئرمین نیب نے ایک ایسی بات کہی کہ جو ان کے تاریخی و سیاسی شعور و مطالعے کا پتہ دیتی ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں مگر ریاست ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اس قول میں وہی پیغام مضمر ہے کہ جو بانیٔ پاکستان نے بیورو کریسی کو ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ آپ حکومتوں کے نہیں ریاست پاکستان کے ملازم ہیں لہٰذا قانون اور ضمیر کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔ انگریزی اسلوب کے مطابق اس وقت باٹم لائن یہ ہے کہ بات بے بات حکمران اپنے سیاسی مخالفین کو مزا چکھانے، ان کے جیل جانے کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے اور ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘ جیسے جملے استعمال کر کے نیب کی آزادی و خود مختاری کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ چیئرمین نیب نے بہت اچھا کیا کہ انہوں نے فواد چودھری کی بڑھکوں کا نوٹس لے لیا اور انہیں نیب میں طلب کرنے کا عندیہ دے کر درست سمت میں کارروائی کی ہے۔ اگر لاہور میں دو اہم امور انجام دینے کے علاوہ جناب چیئرمین لگتے ہاتھوں ایک تیسرا کارِ خیر بھی انجام دیتے جاتے تو علمی و تعلیمی دنیا انہیں بہت دعائیں دیتی۔ جناب جسٹس(ر) جاوید اقبال کا ایک بار پھر پروفائل دیکھتے ہوئے میرے سامنے یہ خوبصورت حقیقت آئی کہ جسٹس صاحب نے اعلیٰ سرکاری عہدہ چھوڑ کر محض اپنے دلی شوق و ذوق کی تسکین کے لیے 1982ء میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں بحیثیت استاد فرائض انجام دینے کو ترجیح دی۔ اگرچہ وہ قانون و سیاست کی رسمی تعلیم اندرون و بیرون ملک 1971ء میں مکمل کر چکے تھے مگر بعد میں 1985ء میں انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں دو سال تک طالب علم کی حیثیت سے قانون و فقہ کے شعبے میں اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ یقینا جناب چیئرمین کے علم میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا کا کیس ہو گا۔ مفسرِقرآن ڈاکٹر محمد اکرم چودھری گزشتہ چھ ماہ سے پسِ دیوار زنداں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے تقریباً تین ہفتے قبل جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے نام جیل کی کال کوٹھڑی سے ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنی صفائی پیش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر اکرم چودھری ان کے دامن پر کسی مالی و غیر مالی کرپشن کا کوئی داغ نہیں ان کا جرم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت فروغ تعلیم ہے۔ نیب نے بھی ان پر کسی مالی کرپشن کا الزام نہیں لگایا البتہ اختیارات سے تجاوز کرنے کی بات کی ہے۔ ایک استاد ہونے کے ناطے ہماری صرف اتنی التماس ہو گی کہ جس طرح جناب چیئرمین نے بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کو ان تک رسائی کا اذن بخشا ہے اسی طرح وہ بزرگ استاد ڈاکٹر محمد اکرم چودھری اور سابق رجسٹرار یونیورسٹی آف سرگودھا بریگیڈیئر(ر) رائو جمیل اصغر کو اپنے پاس بلا کر اذن گویائی دیں اور ان کی بپتاسن لیں اور فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق کریں تا کہ اس پیرانہ سالی میں ممتاز پروفیسر کو رہائی اور سرخروی نصیب ہو سکے۔ گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی شریعت کے مطابق ملزموں کی کردار کشی کو اسلامی نظام عدل کے منافی قرار دیا اور سفارش کی کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو اس وقت تک کسی ملزم کی میڈیا پر رسوائی نہ کی جائے۔ جناب چیئرمین یہ مستحسن فیصلہ بھی صادر فرمائیں کہ آئندہ سرکاری طور پر میڈیا میں جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزموں کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ نہ کیا جائے۔