لگتا ہے کہ آج کل نیب کا ستارہ گردش میں ہے۔ حکمرانوں سمیت کوئی بھی احتساب کے اس ادارے کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آتا ۔ نیب کے تابوت میں تازہ کیل اسلامی نظریاتی کونسل نے ٹھونکا ہے ۔اس کے مطابق نیب کے بہت سے بنیادی نکات خلاف شریعت ہیں۔ چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کونسل کے دو روزہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ نیب آرڈیننس کی شقیں 14ڈی، 15 اے اور26 غیر اسلامی ہیں ۔ویسے تو متذکرہ شقیں پاکستان میں مروجہ قوانین سے بھی متصادم ہیں لیکن چونکہ نیب آرڈیننس کا مقصد حقیقی احتساب نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میںسیاسی انجینئرنگ اور مخالفین کو زچ کرنا تھا لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ جب تک نیب کے تحت پکڑا گیا ملزم خود کو بے گناہ ثابت نہیں کرتا اسے مجرم ہی گردانا جائے گا اور اس کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک ہی کیا جائے گا۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کہہ دیا ہے کہ الزام ثابت ہونے سے پہلے ہتھکڑی پہنانا، الزامات عائد کر کے ذرائع ابلاغ میں تشہیر کرنا اور ملزم کو بغیر مقدمے کے لمبے عرصے تک قید میں رکھنا اسلامی اصول، تکریمِ انسانیت اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے ساتھ متصادم ہے۔کونسل کے مطابق یہ دفعات آئین پاکستان کی شق 227(1) سے بھی متصادم ہیں جس کے مطابق ملک میں کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ پلی بارگیننگ اور وعدہ معاف گواہ بنانا بھی اسلامی طریقہ کار نہیں ہے۔کونسل کے مطابق مجموعی طور پر نیب کا قانون جرم اور سزا کے معاملے میں اسلامی قوانین سے لگا نہیں کھاتا ۔ چند روز قبل ہی سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے رکن جسٹس مشیر عالم نے قرار دیا تھاکہ نیب کے قانون کے تحت پہلے ملزم کو گرفتار کیا جاتا ہے اور بعد میں ثبوت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو خلاف قانون ہے۔ اس پر نیب کے پر اسیکیوٹر نے بڑا بودا موقف اختیار کیا کہ اگر ملزم کو پہلے بتا دیں کہ اسے گرفتار کیا جا رہا ہے تو وہ ثبوت ٹمپر کر لیتے ہیں ۔لہٰذا ضروری ہے کہ اسے پہلے اندھیرے میں رکھ کر گرفتارکیا جائے اور بعد میں ثبوت اکٹھے کئے جائیں ۔ چند ماہ قبل بعداز خرابی بسیار حکومت کو احساس ہوا کہ ملک میں خوف اور پکڑ دھکڑ کی فضا میں بزنس مین سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی بیوروکریٹس حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں بلکہ وہ مستقبل میں گرفتاری کے خوف سے فائلوں پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں ۔ اس حوالے سے جب صنعتکاروںاور بزنس مینوں کے توسط سے آرمی چیف کو اعتماد میں لیا گیا تو انھوں نے چیدہ چیدہ صنعتکاروں کو کھانے پر مدعو کیا ۔جہاں سب نے گلے شکوؤں کے انبار لگا دیئے، سب نیب سے شاکی تھے۔ان کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے بزنس مینوں سمیت ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے نتیجے میں بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ نیب صرف پچاس کروڑ سے اوپر کے معاملات دیکھے گا اور اس سے کم کے معاملات دیکھنے کے لیے ایف بی آر اور ایف آئی اے پہلے سے موجود ہیں۔ بیوروکریٹس کو بھی نیب کی کارروائیوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاویداقبال جو اپنے ادارے پر نکتہ چینی کے حوالے سے خاصے حساس ہیں نے دعویٰ کیا کہ نیب کی کارروائیاں انتقامی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے کوئی بزنس مین متاثر ہوا ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ اپوزیشن کے رہنما تو بڑی دیر سے چیخ چلا رہے تھے کہ ان کو نیب کے ذریعے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ عدلیہ بھی وقتاً فوقتاً انہی جذبات کا اظہار کرتی رہتی ہے اور سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے دائرہ کار میں ہے جہاں نیب ملزمان کی جوڈیشل ریمانڈ پرہونے پر ضمانت ہو سکتی ہے ۔ظاہر ہے کہ اگر آرمی چیف نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا تو یہ اخذ کرنا غلط نہیں ہو گا کہ خود فوجی قیادت کو احساس ہے کہ سرمایہ کاری نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن کے سیاستدان خاص طور پر نیب کے ڈسے ہوئے ہیں۔ شریف فیملی سمیت مسلم لیگ (ن) کے چوٹی کے رہنما نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں یا اس وقت پابند سلاسل ہیں۔یہ بھی طرفہ تماشا تھا کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف کو صاف پانی کے کیس میںطلب کیا اور آشیانہ کیس میں گرفتار کر لیا ،اب وہ ضمانت پر رہا ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو حال ہی میں نارووال سٹیڈیم کے حوالے سے اختیارات کے ناجائز استعمال کے کیس میں گرفتار کیا اور کہا گیا کہ اس منصوبے میں چھ ارب کا نقصان ہوا جس پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ جس منصوبے پر اب تک اڑھائی ارب روپے خرچ ہوئے تو اس میں 6 ارب کی کرپشن کیسے ہو گئی؟۔اسی طرح سا بق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس میں گرفتار کیا گیا ، مفتاح اسماعیل اور پی ایس او کے سابق ایم ڈی عمران الحق کو بھی ان کے ساتھ دھر لیا گیا ہے ۔ نیب کی کوشش ہوتی ہے کہ پلی بارگیننگ ،دھمکی،وعدہ معاف گواہ بنا کر اور تحریص کے ذریعے وعدہ معاف گواہ بنا کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ نیب کے کیسز مکمل کیوں نہیں ہوتے، جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ملک بھر کی ٹرائل کورٹس میں نیب کے مقدمات پر سماعت تاخیر کا شکار کیوں ہیں؟ وجوہات پر مبنی رپورٹ بھی جمع کرائی جائے۔اس حوالے سے سپریم کورٹ نے ملک بھر کے ٹرائل کورٹس میں قومی احتساب بیورو کے زیر التوا مقدمات کی تفصیلات طلب کر لیں۔ فاضل بینچ نے یہ ریمارکس اللہ دینو بھائیوکی درخواست ضمانت کے کیس میں دیئے ۔ نیب نے موصوف کو 2018ء میں پیپلزپارٹی سندھ کی سربراہی کے دوران چالیس لاکھ کی کرپشن کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔نیب کے مطابق چارکروڑ کی رقم بھائیوکے منیجر اور ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے ملی تھی ۔واضح رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں فاضل عدالت نے نیب کو حکم دیا تھا کہ آپ یہ مقدمہ جلدی مکمل کریں لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود نیب اپنے ہی دیئے ہوئے 13گواہوں کی فہرست میں سے صرف دو کی جرح کر سکا ۔ظاہر ہے کہ مقصد محض احتساب نہیں اذیت دینا ہے ۔خواجہ سعد رفیق اوران کے بھائی خواجہ سلمان رفیق بھی نیب کے کیسز میں جیل کی ہوا کھا رہے ہیں ۔نیب کے شکار سیاستدانوں کی فہرست کافی طویل ہے ۔قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جن کی احتساب عدالت نے ہی ضمانت منظور کی تھی کو دوبارہ فوراً گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مثالی ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ۔گزشتہ بدھ کو نیب کے معاملات پر اتفاق رائے پید اکرنے کے لیے اپوزیشن اور حکومتی رہنماؤں کا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے دفتر میں اجلاس ہوا۔ جس کی روشنی میں نیب کے موجودہ آرڈیننس میں ترمیم کرنے کے بعد احتساب کا ایک نیا قانون اتفاق رائے سے سامنے لایا جائے گا۔ یقینا آرمی چیف کی توسیع پر حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوئے ہیں ۔ اس کے پس پردہ دیگر معاملات پر اتفا ق رائے پیداکرنے کی بھی انڈر سٹینڈنگ لگتی ہے ۔ لگتا ہے کہ خان صاحب کا گزشتہ ڈیڑھ سال کا یہ استدلال کہ چوروں کو نہیں چھوڑوںگا سب کو جیل میں ڈال دوں گا، ائیرکنڈ یشنز اتار دوں گا کو مزید بڑھانے کی گنجائش نہیں رہی ۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عملی طور پر شاید نیب کے کیسز ختم نہ ہوں لیکن آہستہ آہستہ سیاستدانوںکی ضمانتیں ہو جائیں گی اور ان کیسز کے بارے میں گوسلو کی پالیسی اپنائی جائے گی ۔ عدالتیں تو پہلے ہی نیب کی ناانصا فیوں کا نوٹس لے رہی ہیں، اب اس عمل میں تیزی آنے کی توقع ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت میں سی بی آئی اور امریکہ میں ایف بی آئی کی طرح احتساب کے حوالے سے ایک ہی واچ ڈاگ ہو اور یہ ادارہ بلا امتیاز سب کا احتساب کرے اور یہ کسی آمر یا سیاستدان کے ذہن کی اختراع نہ ہو بلکہ اسے پوری پارلیمنٹ کی حمایت اورآشیرباد حاصل ہو ۔نیب کے قانون میں کم از کم ملزمان کی وائٹ کالر کرائم میں ضمانت تو ہو سکے چہ جائیکہ انھیں جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ڈال کر چابیاں پھینک دی جائیں ۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری نے اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی اور ٹویٹ کیا کہ’’اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات ہیں، آج تک مذہبی طبقات کی سوچ کو نظریاتی کونسل سے کوئی رہنمائی نہیں ملی، ایسے ادارے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا جواز میری سمجھ سے بالاتر ہے، ادارے کی تشکیل نوکی ضرورت ہے،جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ، انتہائی جید لوگ اس ادارے کو سنبھالیں‘‘ ۔ جب نیب آرڈیننس بنایا جا رہا تھا فواد چودھری صاحب خود پرویز مشرف کی گود میں بیٹھے تھے، لگتا ہے انہوں نے تاریخ کا ٹھیک طور پر مطالعہ نہیں کیا۔ ان کی بات سے جزوی اتفاق کرنے کے باوجود یہ بات نظروں سے اوجھل نہیںہونی چاہیے کہ یہ اسلامی نظریاتی کونسل ہی تھی جس نے1988ء میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کوغیر اسلامی قرار دیا تھا ۔