پاکستان کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی سے طویل عرصے سے وابستہ اور دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کا اپنی خود کشی سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط در اصل نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو المعروف نیب کے نام ایک طرح کی ایف آئی آر ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اس اہم ترین کیس پر پہلا ازخود نوٹس لیا۔مرحوم اسد منیر کے اس دلسوز سانحے سے پہلے گو پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑیوں میں گھسیٹنا اور پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کی ہتک آمیز سلوک بھی نیب کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں میں کچھ کم قابل ِ شرم نہیں تھی ۔مگر ہمیشہ اسکرینوں پر مسکراتے ،سلجھی گفتگو کرتے اسد منیر نے اپنے خط میں جس افسردگی اور دل دوزی سے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے چیف جسٹس کو جو خط لکھا۔۔۔ اُس پر تحریک انصاف کی حکومت سمیت مقتدر اداروں کی خاموشی کو بے رحمی اور سفاکی ہی کہا جاسکتا ہے۔یوں تو شریفوں اور زرداریوں کی جانب سے بھی بڑا واویلا مچا ہے۔مگر اُن کا سارا معاملہ سیاسی اور خاندانی مفادات پر مبنی ہے۔دونوں نے ایکدوسرے سے انتقام لینے کے لئے اس احتسابی ادارے کو خوب خوب استعمال کیا۔اور آج دونوں اپنے اپنے دور میں لگائے گئے ان کچوکوں کے معذرت کے ساتھ،بازاری زبان میں،زخم چاٹ رہے ہیں۔کیا اسد منیر کا کیس اپنے انجام کو پہنچ سکے گا؟ یا اصغر خان کیس کی طرح اُن کی رخصتی کے ساتھ جو فائل سپریم کورٹ کی رجسٹری میں دفن کی جاچکی ہے۔اس کا بھی یہی انجام ہوگا۔کہ یہاں زندوں کی فغاں کہاں سنی جاتی ہے۔کہ مردوں کی شنوائی ہوسکے۔احتساب بیورو کا قیام ہمارے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں عمل میں آیا تھا۔اور اسکی سربراہی بد نامِ زمانہ سیف الرحمان کو دی گئی۔احتساب بیورو کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی سفاکی اور بے رحمی کی شہرت رکھنے والے موصوف سیف الرحمان جب اپنی برطرفی کے بعد پہلے دن پکڑے گئے تو ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں رکنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔سیف الرحمان جنہیں بعد میں احتساب الرحمان کا نام دیا گیا۔’’کس دیس بستیاں ہیں‘‘کم از کم میری معلومات تو اس حوالے سے غریب ہیں۔کہا جاتا ہے جس ادارے کی بنیا د ہی غلط ہو اُس پر کھڑا ڈھانچہ بھی کھوکھلا ہوتا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بعد جب سیاسی گند صاف کرنے کے دعویدار جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے اور احتساب بیورو کو نیب کا نام دیا گیا توحاضر سروس جنرلوں کو سربراہ بنانے کی بدعت پڑگئی ۔مشرف دور میں نیب کے پہلے تین سربراہ توبہ توبہ کرتے کرتے سال گذارنے سے پہلے ہی رخصت ہوگئے۔کہ اس دوران جنرل پرویز مشرف نے بھی سیاسی مفادات اور انتقام کی بھینٹ چڑھانا شروع کردیا تھا۔2005ء میں نیب کے چوتھے سربراہ بننے والے جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کب تک‘‘ میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نیب کو سیاسی اور انتقامی بنیاد پر جس طرح چلایا گیا۔اس کی ساری المناک داستان جنرل صاحب نے رقم کر دی ہے۔حیرت ہے کہ آج جب شریفوں اور زرداری دور کے کرپشن کے مقدمات کی ’’ پھوتیاں‘‘ کھولی جارہی ہیں…تو مشرف دور میںنیب کی انتقامی کاروائیوں ،زیادتیوں اور سیاسی مفادات کے دفتر کو کیوں نہیں کھولا جارہا۔جنرل شاہد عزیز نے اپنی زخیم کتاب میں اسے بغیر کسی لگی لپٹی سمیٹ دیا ہے۔جنرل صاحب لکھتے ہیں: ’’ریٹائرمنٹ کے بعد اکتوبر 2005میں مجھے صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دفتر میں بلوایا ۔ کہنے لگے۔’’تم قومی احتساب بیورو (نیب) کو سنبھالو۔مجھے تم سے صرف ایک بات کہنی ہے ۔میری حکومت میں کچھ ایسے لوگ ہیں،مثلاً فیصل صالح حیات جنکی کرپشن کے کچھ پرانے قصے ہیں۔تم فی الحال ان کو نہ چھیڑنا ۔ورنہ میری حکومت غیر مستحکم ہوجائے گی۔ملک کا مالی دیوالیہ نکل جائیگا۔اگلے سال الیکشن ہیں۔اُس کے بعد دیکھ لینا۔‘‘میں نے یہی مناسب سمجھا اور حامی بھر لی ۔مشرف صاحب اُس دور کا ذکر کر رہے تھے جب پی پی پی کے 12ارکان کو مراعات اورمعافی دے کر ق لیگ کی حکومت بنائی گئی تھی۔‘‘ جنرل صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں ۔۔۔ ’’نیب میں آنے کے چند مہینے کے اندر ہی مجھے احساس ہوگیا تھا کہ حکو مت کا سارا نظام اور ملک کے بڑے بڑے بااثر افراد میرے خلاف صف آراء ہیں ۔ایک دن صدر صاحب نے مجھے ملاقات کے لئے بلایا۔اور میز پر رکھے کاغذات کو جھٹکے سے دھکیلا۔وہ پھسلتے ہوئے میز کے آخری سرے پر جا کے ٹھہر گئے۔’مجھے پرواہ نہیں کہ تم نے اس میں کیا لکھا ہے۔میں اسے پڑھنا بھی نہیں چاہتا۔‘انہوں نے غصے سے مجھے گھورتے ہوئے مجھے کہا۔یہ تیل کی انکوائری کی رپورٹ تھی۔جسے انہوں نے یوں پھینکا۔ذہن سے خیال گزرا کہ اس ملک کے محکمہ احتساب کا سربراہ ہوں اور آپ میری بات بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔میری آواز بھی اٹھ گئی۔’پھر کوئی اور چیئر مین نیب ڈھونڈ لیں۔میں آپ کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔‘جنرل مشرف بھی کھڑے ہوگئے۔کچھ دیر سناٹا رہا۔میں کمرے سے باہر جانے لگا تو ان کے ساتھ بیٹھے جنرل حامد کی آواز آئی ۔’سر ہم اس انکوائری کو دیکھتے ہیں۔کوئی حل نکال لیں گے۔‘وہ بھی میرے ساتھ پیچھے باہرآگئے۔جنرل صاحب نے ایک دن اور مجھے دفتر بلایا ۔خاصے ناراض تھے۔کہنے لگے۔’یہ تم کیا تیل کی انکوائری میں لگے ہوئے ہو۔اس میں کچھ گھپلا نہیں ہے۔پہلے تم نے چینی کی انکوائری شروع کردی۔اس میں بھی کچھ نہیں تھا۔ڈی ایچ اے کی بھی انکوائری کردی تھی۔اس میں بھی کچھ نہیں تھا۔‘میں چپ رہا تو کہا۔’تم بہت ہٹ دھرم ہو ۔تم سمجھتے ہوتم ہی ٹھیک ہو ساری دنیا غلط ہے۔‘اتنا سن کر مجھ سے رہا نہ گیااور کہا۔’چینی کی انکوائری شروع ہوتے ہی بند کرادی تھی۔خود کیا دیکھا تھا؟وہی نا جو ملوں کے مالکان نے بتایا تھا۔اُس دن بھی آپ نے مجھ پر یہی الزام لگایا تھا۔تو کون rigidتھا۔‘پھر میں نے دوسری بات یاد دلائی ’کہ جہاں تک ڈی ایچ اے کا سوال ہے۔آپ نے خود کہا تھا کہ بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے انہیں سزا ملنی چاہئے۔آپ کو یاد ہے نا؟‘ اس پر ان کا موڈ بدل گیا،آواز دھیمی ہوگئی۔کہنے لگے۔’دیکھو نا تم نے بات ہی اتنی بڑھا دی تھی۔خاموشی سے مجھے بتا دیتے۔ہم ان لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیتے۔ڈی ایچ اے کا مسئلہ ختم ہوجاتا۔یعنی معاملے کو جھاڑ کرقالین کے نیچے کر دیتے۔‘‘‘ جنرل شاہد عزیز کی کتاب سے یہ چند اقتباسات ہیں۔جنرل صاحب نے کم ازکم چار تفصیلی باب نیب کے حوالے سے لکھے ہیں۔جو انکے چار سالہ دور میں کس طرح وہ دباؤ میں رہے کہ بڑے بڑے کرپشن کی فائلیں نہ کھلیں۔خواہش تو مچل رہی ہے، کہ انہیں لفظ بہ لفظ نقل کردوں تاکہ ہمارے موجودہ نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی اس پر بھی توجہ جائے ۔مگر معذرت کیساتھ اس وقت ہمارے نیب کے ٹارگٹ پر شریفوں اور زرداریوں کے کیسز ہیں۔جسٹس صاحب سے بصد احترام کہ انصاف selectiveنہیں ہونا چاہئے ۔اگر سیاستدان کٹہرے میںلائے جارہے ہیں۔تو سابقہ جنرل اور جج بھی اسی کٹہرے میں لائے جائیں۔آئندہ ذرا زیادہ تفصیل سے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ سابقہ جنرلوں اور ججوں کی وہ داستان رقم کرنے کی جسارت کروں گا ۔ کہ جسے شاید ہمارے جسٹس صاحب اس وقت سننا پسند نہ کریں۔