اٹلی سے تعلق رکھنے والا نکولو میکائولی وہ پہلا سیاسی مفکر تھا جس نے سیاست کو اخلاقیات سے علیحدہ کر کے پیش کیا۔اپنی کتاب میں اس نے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ ان کی توجہ کا مرکز غلط اور صحیح کے بجائے اس بات پر ہونا چاہیے کہ حقائق کیا ہیں اور کیا حاصل کرنا ضروری ہے ۔ کتاب ’’ دی پرنس‘‘ کا خالق میکائولی اپنے تمام تر خود غرضانہ نظریات کے باوجود خود حکمران بن سکا نا ہی دنیا کی کسی ریاست نے اس کے نظریات کو اعلانیہ تسلیم کیا مگر دنیا بھر کے سیاستدان اور ریاستیں اپنے مفاد کے لئے اس کے نظریات سے استفادہ ضرورکرتی ہیں مگر اخلاقی جوازبتا کر ۔ پاکستان کاالمیہ یہ ہے کہ یہاں سیاستدان دو رنگی کو چھپا نہیں پاتے۔ 2014ء میں عمران خان نے عوام کی طاقت سے جمہوری انداز میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے دھرنا دیا تو ان کے دست راست مخدوم جاوید ہاشمی نے یہ کہہ کر بغاوت کر دی کہ عمران خان عوام کی طاقت نہیں ایمپائر کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف نے عدالتوں سے سزا کے بعد ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کا نعرہ لگایا اور دعویٰ کیا کہ وہ ماضی کی سیاست سے تائب ہو کر نظریاتی ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) عمران خان کے ساڑھے تین سال کے اقتدار کے دوران ووٹ کو عزت دلواتی رہی لوگوں کو ان کی حکومت گرانے والوں کے نام بتائے جاتے رہے۔عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خود ان کے اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے مقدمات کو عدالتوں میں لے گئے تو مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا تھا کہ آپ جو کر رہے ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ماضی میں یہی کچھ کرتی رہی ہیں۔ ہمیں سمجھ آ گئی ہے آپ کو بھی آ جائے گی۔ سعد رفیق اسمبلی فلور پر عمران خان کو میر حسن کے اس شعر کے مصداق مشورہ دیتے رہے ۔ مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا سعد رفیق کی پیشگوئی درست ثابت ہو ئی، اقتدار کے 44ماہ بھی مکمل نہ ہوئے تھے کہ اقتدار کا ہما شہباز شریف کے سر پر جا بیٹھا۔عمران خان توشہ خانہ، ہیلی کاپٹر کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیںتو ان کے وسیم اکرم پلس پر نوسو کنال سرکاری اراضی غیر قانونی طور پر اپنے نام منتقل کرانے کا الزام ہے۔بلین ٹری، مالم جبہ، شیریں مزاری ، فرح گوگی اور جانے کتنے بدعنوانی کے معاملات ہیں جن کی تحقیقات کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ حکومت کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت بھی کرپشن کے الزامات کا عدالتوں میں بالکل اسی طرح سامنا کر رہی ہو گی جس طرح مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے کیا۔ ممکن ہے یہ سیاسی دو رنگی اسی طرح چلتی بھی رہے، مگر کم از کم اس بار اتنا ضرور ہوا ہے کہ یہ کھیل اب عام آدمی پر عیاں ہو گیا ہے۔ نواز شریف کے بارے میں پہلے ہی سوچ پختہ تھی ’’ وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘۔اس تاثر پر مسلم لیگ کے ہی اہم رہنما خرم دستگیر کے اعتراف کہ اگر پی ڈی ایم عمران خان کی حکومت کومدت پوری کرنے دیتی تو عمران خان کو اگلے 15سال اقتدار سے باہر نکال پھینکنا ممکن نہ ہوتا ،نے مہر تصدیق ثبت کردی۔ وجہ انہوں نے آرمی چیف کی تقرری اور عمران خا ن کی نیب کی عدالتوں میں سو جج مقرر کرنا بتائی۔ جس سے کرپشن کے مقدمات برق رفتاری سے بڑھتے اور پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی صف اول کی قیادت جیلوں میں ہوتی۔ خرم دستگیر کے انکشافات سے جہاںیہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ مسلم لیگ ن جو نئی نئی نظریاتی ہوئی تھی، اپنے موقف سے تائب کیوں ہوئی وہاں مداخلت اور سازش کی ضرورت یا مجبوری بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی ووٹ کو عزت دو کی سیاست سے انحراف اور احتساب کے نام پر اقتدار میں آنے والے عمران خان کی حکومت کے خاتمے جیسے حالات پر ہی شاید سردار سلیم نے کہا تھا کہ: دھوپ کے ہاتھوں پہ بیعت کر چکی ہیں ٹہنیاں رنگ سارے سبز پتوں کا سنہرا ہو گیا پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ بھلے ہی میڈیا اور نیوٹرل دھوپ کے ہاتھوں پر بیعت کر کے سنہرے ہو گئے ہوں مگر عام آدمی کی آنکھوں میں سیاستدانوں کے چہرے آج بھی سیاہ ہیں جن کا رنگ مہنگائی اور بے روزگاری مزید سیاہ تر کر رہی ہے۔ پاکستان کے افلاس زدہ خودکشی پر مجبور لوگوں کی آنکھوں میں آج ایک ہی سوال ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہبازنے قومی خزانہ لوٹا تو ان کو ہی ایک بار پھر قوم پر کیوں مسلط کیا گیا ؟ اور اگر ان پر مقدمات سیاسی انتقام یا ضرورت کے تحت بنائے گئے تھے تو پھر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنانے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی باہم شیرو شکر کیوں ہیں؟ کرپشن کے معاملات کی حقیقت سے عام آدمی تو بے خبر ہو سکتا ہے مگر وہ نہیں جن کو عمران خان امر بالمعروف و نہی عن المنکر یاد دلا کر نیوٹرل نہ رہنے کا کہہ رہے ہیں۔ اگر میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے تو ان پر ظلم ہوا مگر اس سے بھی بڑا ظلم ان کے ساتھ یہ ہوا کہ ان مقدمات کی موجودگی میں ان کو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ پاکستان کی عدالتیں اگر میاں نواز شریف کو حکومت میں ہوتے ہوئے سزا دے سکتی ہیں توعمران خان کے وزیر اعظم رہتے ہوئے شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالتوں سے باعزت بری بھی ہو سکتے تھے۔سب سے بڑا سوال تو پاکستانیوں کے ذہن میں یہ گونج رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کا ذمہ دار کون ہے؟ عوام کی اکثریت نا سہی کم از کم اشرفیہ کو جواب کا علم ضرور ہے مگر ان کے مفادات کا تقاضہ ہے کہ: مے کدے میں بھی دیکھ کر نہ کہو نیت شیخ پارسا بگڑی نیت شیخ پارسا کیوں بگڑی یہ الگ موضوع ہے ممکن ہے اس میں بھی قومی سلامتی اور ملکی بقا کا معا ملہ ہو ۔لیکن بھلے اوراق ماضی چاٹ جائے وقت کی دیمک جو قصے یاد آنے ہیں وہ قصے یاد آئیں گے