بظاہر گزشتہ دنوں میں ہمیں معاشی لحاظ سے چند ایک خوش کن خبریں موصول ہوئی ہیں جن میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور بیرونِ ملک لین دین کی ادائیگیوں کو انٹر بنک ریٹ کے ساتھ منسلک کرنا ہے جس سے فوری طور پر عوام کو کچھ فائدہ ضرور منتقل ہوا ہے۔ حکومت کے بیرونی لین دین کے معاملے کو فوری طور پر بنک ریٹ کے ساتھ منسلک کرنے کے فیصلے سے بازار میں ڈالر کی شرح تبادلہ میں فوری طور پر 16سے 20روپے کے قریب کمی کا مشاہدہ کیاگیا ہے، اس کمی میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے جس کی وجہ سے حکومت کے اس اقدام کو کافی سراہا جا رہا ہے۔ اگرچہ فوری طو ر پر بازار میں اونچی اُڑانیں بھرتی ڈالر کی شرح تبادلہ کے پر ضرور کاٹ دیے گئے ہیںمگر یاد رہے اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ میں مزید اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں انٹربنک میں ڈالر کی شرح تبادلہ میں اضافے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے پاس اس وقت چار ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جبکہ بیرونی ادائیگیوں کے بعد اس کی حالت کافی کمزور نظر آتی ہے جب تک کہ انہیں ری شیڈول نا کروا لیا جائے۔ چنانچہ طویل مدت میں اس سے ہمیں جس بوجھ کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے لئے بھی لائحہ عمل فوری طور پرترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔وگرنہ آئندہ نو ،دس ہفتوں میں حکومتی مدت پوری ہوتے ہی ایک اور انتہائی کٹھن دور کا آغاز ہو جائے گا۔ نیشنل اکاوئنٹس کمیٹی کے اجلاس میں جس طرح کے اعدادوشمار منظورکرنے کے بعد عوام کے سامنے پیش کئے گئے ہیں اُن سے بھی کافی شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہاہے ۔ ہمارے معاشی تجزیہ کے مطابق یہ شرح نمو منفی میں ہے مگر حکومت نے اسے 0.29 فیصد بتایا ہے ۔اس شرح نمو پہ شبہ کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ حکومت نے زراعت کے شعبہ میں شرح نمو 1.55فی صد بتائی ہے ۔ اہم فصلوں کے معاملے میں یہ شرح نمو -3.20 فی صد ہے جو کہ گزشتہ ربیع کے موسم میں پڑنے والی شدید خشک سالی اور خریف کے موسم میں آنیوالے شدید قسم کے سیلاب کا براہ راست نتیجہ ہے ۔چنانچہ اتنے بڑے نقصان کے بعد زراعت کے شعبہ میں مجموعی مثبت شرح نمو ایک سوالیہ نشان ہے ۔ مزید برآں اس مثبت شرح نمو کا بنیادی حصہ مویشی ، جنگلات اور ماہی گیری کے شعبوں سے بتایا گیا ہے جس میں ان کا حصہ بالترتیب 1.44, 3.93 3.78فی صد ہے۔ شبہ کی بات یہ ہے کہ سیلاب کے دوران ہونیوالے جانوروں کے بھاری نقصان کے باوجود یہ شرح نمو مثبت،اور تاریخی اعتبار سے بلند ترین کیسے ہے دوسری بات یہ ہے کہ یہ شرح نمو 2006ء میں ہونی والی جانور شماری کی بنیاد پر جاری کی جاتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ آپ سترہ برس پرانے اعداوشمار کی بنیاد پر آج کے اعداوشمار پیش کر رہے ہیں ۔ جو کہ ملک کی مجموعی شرح نمو کے درست تخمینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ صنعتی شعبہ میں گراوٹ کا تخمینہ -2.94 فیصد بتایا گیا ہے جبکہ حقیقت میں یہ اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ حکومت نے قومی خزانے میں زر مبادلہ کو گزارے لائق قابو میں رکھنے کے لئے کافی عرصے سے درآمدات کو مصنوعی طور پر روک رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہماراصنعتی شعبہ شدید ترین متاثر ہوا ہے ۔ ملک کے کاروباری شعبہ پرمسلسل سیاسی عدم استحکا م اور تاریخی مہنگائی کے اثرات اس کے علاوہ ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں شدید بے روزگاری کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔خطِ غربت سے نیچے چلے جانے والوںکی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ چنانچہ یہ اعداد شمار حقیقت کے قریب تر نظر نہیں آتے۔ایک بہتر معیشت اور مستقبل کے لئے درست اعداد و شمار ازحد ضروری ہیں تاکہ آئندہ برس کے بجٹ اور مستقبل کی منصوبہ بندی درست اور مضبوط بنیاوں پر اُستوار ہوسکے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی ادارے سے ہمارا معاہدہ ماہِ رواں میں ختم ہونے جا رہا ہے چنانچہ جب تک ایک نیا معاہدہ وجود میں نہیں آجاتا پاکستانی معیشت پر انتہائی شدید غیر یقینی حالات کے بادل چھائے رہیں گے۔ کیونکہ ہمارے باہمی شراکت داروں کی مدد بھی انہی کے اشاروں کی منتظر ہوتی ہے ۔ ایسے میں صرف چین ہی وہ ملک ہے جو پاکستا ن کی مددکرتا آ رہا ہے مگرچائنہ کی جانب سے ایک بلین ڈالر( آئی پی پی کی مد میں)کا تقاضا بھی آسکتا ہے جو کے کافی دیر سے واجب الادا ہیں، ایسی صورت میں حالات انتہائی مخدوش ہو سکتے ہیں۔ مگر اس بات کا بھی امکان ہے کہ اسے تھوڑے عرصہ کے لئے ملتوی کروالیا جائے۔ جس سے کچھ عرصہ کے لئے سکون کے سانس لی جا سکتی ہے۔ آج ہمیںمعاشی لحاظ سے جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ایسے تو اُن دنوں بھی نہیں تھا جب مشرقی پاکستا ن ہم سے علیحدہ ہوا۔سو ایک بہتر کل کے لئے ہمیں آج اور فوری طور پر معاشی لحاظ سے ایک نیشنل ایکشن پلان کی اشدضرورت ہے ۔ سبھی شعبہ جات میں فوری طور پر ضروری اصلاحات کی جائیں ، جس کے لئے ریاست کے سبھی شراکت داروں کے درمیان باہمی اتفاق سے میثاقِ معیشت کیا جائے اور اس میثاق کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ضروری اقدامات اُٹھائے جائیںبصورت دیگر اس ملک کا مستقبل ایسے ہی مخدوش رہے گا جس پہ دیوالیہ ہونے کا خدشہ مسلسل منڈلاتا رہے گا۔اس وقت ملک کا مستقبل صرف اور صرف میثاق معیشت سے جڑا ہے جس کا قرض اس ملک کے سبھی ذمہ داران پر ہے ۔ ٭٭٭٭٭