دریائے نیلم کا مرکز مقبوضہ کشمیرکا وادی گریس ہے۔ آزاد کشمیرمیں داخل ہوتے ہوئے اس کے ساتھ کئی شوریدہ نالے مل جاتے ہیں جس کے باعث یہ ایک بہت بڑے اورتیز رفتار دریاکی شکل اختیارکرلیتاہے ۔ بھارت مقبوضہ کشمیرکے اس دریاکو کشن گنگا سے پکارتا ہے۔ دریائے نیلم آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں داخل ہوکر اس شہرکی رونق کودوبالاکرتا ہے۔مظفرآباد میں سنگم کے قریب دریائے نیلم، دریائے جہلم میں مل کردونوں کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی دریائے نیلم کے بہتے ہوئے پانی پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنایاگیا ہے جونیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے نام سے جاناجاتاہے ۔کئی پہاڑکھودکرجس طرح یہ پاورپراجیکٹ بنایاگیایہ فی الحقیقت ایک عجوبہ اورانجینئرنگ کاایک شاہکارہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دنیا میں پن بجلی کی پیداوار کا جدید اور منفرد منصوبہ ہے ۔یہ مملکت پاکستان کا پہلا زیر زمین بجلی کا پراجیکٹ ہے ۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا 90فیصد حصہ بلند و بالا پہاڑوں کے نیچے زیر زمین تعمیر کیا گیا ہے اورکمال یہ ہے کہ دریائے نیلم کو گڑھی دوپٹہ کے مقام پر 180میٹردریائے جہلم کے نیچے سے اس طرح گزارا گیا ہے کہ دریائے جہلم کواس کاپتہ بھی نہ چل سکا۔420میٹربلندی پر سے بہنے والے پانی پربنائے جانے والایہ پراجیکٹ جہاں لازوا ل پاک چین دوستی کا عملی مظہر اوریہ انجینئرنگ کا بے مثال شاہکار ہے وہیں یہ پاکستان کی خوشحالی اور آزاد کشمیر کی ترقی کا ایک اہم سنگ میل ہے ۔بلاشبہ یہ منصوبہ ملک و قوم کا عظیم سرمایہ ہے۔نیلم جہلم منصوبے کی سرنگیں ،پاور ہائوس،سیوئچ یارڈ اور ٹرانسمیشن لائنز کی تعمیرکسی عجوبے سے کم نہیں۔نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے جنوب میں 42 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی نصب صلاحیت969 میگاواٹ ہے۔ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ دس سال میں مکمل ہوا ۔31 کلومیٹر لمبی ٹنل تعمیر کے ذریعے وادی نیلم میں بہتے ہوئے دریائے نیلم کو نوسیری کے مقام سے ٹنل کے ذریعے چھتر کلاس تک لے جایا گیا۔ چھتر کلاس کے مقام پر زیر زمین پاور ہائوس کی تنصیب کی گئی ہے۔جولائی 2007ء میں ایک چینی کنسورشیم کو تعمیراتی معاہدہ سے نوازا گیا تھا۔ اس پاور ہائوس میں چار پیداواری یونٹ نصب کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کی پیداواری صلاحیت242 اعشاریہ25 میگاواٹ ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ قومی نظام کو سالانہ اوسطاً تقریباً 5 ارب یونٹ بجلی مہیا کرے گا۔ اس منصوبے کے فوائد کا تخمینہ تقریباً55 ارب روپے سالانہ ہے۔ میرے ایک دوست ارشدکریم جواس پراجیکٹ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ یہ بجلی پراجیکٹ ہر سال 5،150 گیگا واٹ (گیگا واٹ گھنٹہ) پیدا کرے گا اس طرح جہاںیہ پراجیکٹ ملک میں بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔وہیںاس بجلی پراجیکٹ سے مملکت پاکستان کو سالانہ کم از کم 55ارب روپے کا فائدہ ہو رہا۔جبکہ 18مئی 2020ء میںترجمان واپڈا کے مطابق 969 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ نے نیشنل گرڈ کو 8ارب یونٹ بجلی فراہم کی۔ اس کے کیساتھ پراجیکٹ سے نیشنل گرڈ کو فراہم کی جانے والی بجلی کی اِس مقدار کی بدولت 80 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا ہوا۔ نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 2008ء میں 84 ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن یہ شاہکار بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے 500ارب روپے میں مکمل ہوا ہے۔ یہ بجلی پروجیکٹ ہر سال نیشنل گرڈ کو تقریباً پانچ ارب یونٹ سستی پن بجلی مہیا کر رہا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرل پاور پروجیکٹ میں تین یونٹ مسلسل چل رہے ہیں جن سے969 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ چوتھے یونٹ کو کسی بھی ایمرجنسی کے لئے ایڈیشنل رکھا گیاہے۔ منصوبہ کو چائنا کی کی کنٹریکٹر کمپنیCGGC نے مکمل کیا ہے۔ کنسلٹنٹ کی ذمہ داری امریکن کمپنیMWH کی تھی۔ LDC نیسپاک ACE واپڈا نے منصوبہ پر نگرانی کے فرائض سرانجام دئیے ہیں۔ دس ساں میں کام کے دوران مختلف حادثات میں 20سے زائد مزدور اور چینی انجینئرز ہلاک ہوئے ہیں۔ اس عظیم شاہکارمنصوبے کی تکمیل کے بعد 13 اپریل2018ء کواس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کر کے اسے چالوکردیا ۔ پاکستان کے محکمہ بجلی یا واٹراینڈ پاورڈیپارٹمنٹ ’’ واپڈا ‘‘کویہ عظیم ہائیڈرو پاورپراجیکٹ ملک میں بجلی کی خطرناک حد تک کمی پرقابو پانے میں مددگارثابت ہوا۔دستیاب معلومات کی بنیاد پرنیلم جہلم ہائیڈروپاورپراجیکٹ کے لئے حاصل شدہ زمینوں کے معاوضے حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے جو بھی طے کئے گئے، ادا کر چکی ہے۔ اسی پراجیکٹ کے این او سی میں چوبیس سکیمیں واپڈا کے فنڈز سے بنانے کی آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے شرط رکھی گئی جو واپڈا نے تسلیم کرتے ہوئے چوبیس سکیموں کے لئے 5237ملین یعنی 5.2ارب روپے آزاد کشمیر کے لئے فنڈز مختص کر دئیے۔ جن میں سے 22 سکیموں کی رقم آزاد کشمیر حکومت کو دے دی گئی ہے جبکہ 2 سکیموں کی رقم واپڈا کے ذمے واجب الادا تھی ممکن ہے کہ اس کالم کے لکھے جانے تک وہ بھی ادا ہوئی ہو چکی گی۔کہاگیا تھا کہ ا س جملہ رقم میں1448 ملین روپے کی جھیلوں کا بھی منصوبہ شامل ہے جوں ہی آزاد کشمیر حکومت اس کی فزیبلٹی رپورٹ مکمل کر کے واپڈا کو دے گی باقی رقم آزاد کشمیر حکومت کو ادا کر دی جائے گی۔