اودے پور کے اس سبزی خور ہوٹل کی بہت سی مزے دار یادیں ہیں لیکن صرف دو واقعات سن لیجیے۔ ہم غالبا چار دن وہاں رہے تھے۔مقیم شعراء میں جناب شہریار اور احمد فراز سب سے سینئر تھے اور مصیبت یہ تھی کہ اس بات کا ان دونوں کو احساس بھی تھا۔عمر کے اس حصے میں طبیعت پر بعض اوقات چڑچڑاپن حاوی ہونے لگتا ہے اور سینیارٹی کی رعایت میں وہ باتیں بھی انسان کہنے لگتا ہے جو محفل کی خوشگوار فضا کو تناؤ میں بدل دیں۔چنانچہ ان دونوں سینئرز کی طرف سے کوئی نہ کوئی بات ایسی ہوجاتی تھی جس سے فضا بوجھل ہوجاتی تھی۔پھر مسئلہ یہ بھی تھا کہ فراز صاحب اور شہریار عموما ًایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ایسی صورت میںبس یہی ممکن تھا کہ پوری سنجیدگی اور پورے دھیان سے اپنی اپنی سبزیاں کھائی جائیں۔تاہم امجد صاحب ، میں ، عازم کوہلی ، عنبرین اور حسیب صورت حال پر زیرِ لب مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے رہتے تھے۔مسئلہ یہ تھا کہ ناشتے دوپہر کے کھانے شام کی چائے اور رات کے کھانے پر سب اکٹھے ہوتے تھے اور کوئی نہ کوئی بات ناگہانی وقت کی طرح اچانک آن پڑتی تھی۔ ایک رات کھانے پر ہندوستان میں اردو شاعری کی بات چل نکلی۔میں نے بے اختیار کہا کہ ہندوستان میں تو ایک ہی شاعر تھا اور وہ تھا عرفان صدیقی۔اس سے شاید دو سال پہلے عرفان صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔جملہ کہتے ہی مجھے احساس ہوگیا کہ شہریار کی موجودگی میں مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔مجھے یقین ہوگیا کہ میری ایسی شامت آنے والی ہے کہ میں تو کیا میری دال سبزیاں بھی ذبح ہوجائیں گی۔ حسبِ اندیشہ شہریار بری طرح تلملا گئے۔میری خوش قسمتی کہ ابھی وہ کچھ کہنے والے ہی تھے کہ میرے بالکل سامنے بیٹھے فراز صاحب نے کہا۔ ’ ’ بالکل درست،عرفان صدیقی ہی واحد شاعر تھا ہندوستان میں‘‘۔شہریار کی توجہ میری طرف سے ہٹ گئی اور وہ فراز سے الجھ گئے ۔انہوں نے پاکستانیوں اور پاکستانی شاعری پر تادیر تبصرے کیے جن میں سے غصے کو نکال دیں تو کوئی خاص بات نہیں بچتی تھی۔ یہ نشست اسی طرح زیر لب مسکراہٹوں پر ختم ہوئی۔میرے لیے اس گفتگو میں کئی باتیں حیرت انگیز تھیں۔ایک تو یہ کہ شہریار نے عرفان صدیقی کی بالکل تعریف نہیں کی حالانکہ وہ ان کے دوستوں میں گنے جاتے تھے۔دوسرے یہ کہ فراز نے عرفان صدیقی کی تعریف کی جبکہ وہ ہرگز عرفان کے دوستوں میں نہیں تھے۔ فراز صاحب کی ایک بہت مشہور غزل ’ ’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں ‘‘ کا ایک شعر ہے سنا ہے دن میں اسے تتلیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات میں جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں ایک دن ناشتے کے بعد ہم سب ہوٹل کے سامنے لان میں آبیٹھے۔میں نے سوچا کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محفل کی ویڈیو بنائی جائے ۔میں باری باری سب کی ویڈیو بناتے ہوئے جب فراز کی طرف آیا تو دیکھا کہ وہ ارد گرد منڈلا تی ہوئی کچھ مکھیوں کو ہٹا رہے ہیں ، مجھے شرارت سوجھی اور میں نے فی البدیہہ کہا سنا ہے دن میں اسے مکھیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات کو مچھر ٹھہر کے دیکھتے ہیں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔مجھے ڈر تھاکہ فراز صاحب برا نہ مانیں لیکن خود انہوںنے بھی اس کالطف لیا تو میری جان میں جان آئی ۔ اودے پور کو الوداع کہنے کا مرحلہ آیا تو تمام پرندوں کی اڑانیںجدا جدا تھیں۔اودے پور سے شمال کی طرف یعنی دہلی بذریعہ سڑک جانا ہو تو پہلے اجمیر اور پھر جے پور راستے میں پڑتے ہیں۔میں، امجد صاحب اور عازم گروندر کوہلی اسی راستے سے دونوں منزلوں پر رکتے ہوئے واپسی کا پروگرام طے کرچکے تھے۔نومبر 2006 ء کی ایک خوشگوار صبح ہم نے باقی ساتھیوں کو الوداع کہا اورگاڑی میں اجمیر کے لیے روانہ ہوگئے۔ ذرا سا آگے نکلتے ہی راجستھانی ماحول ، لینڈ سکیپ ، چہرے اور لباس سامنے آنے لگے ۔کہیں نرم ریت اور کہیں سخت مٹی ،کہیں کہیں کھیت اور ہریالی کے ٹکڑے ،یہاں وہاں جنگلی جھاڑیاں،اڑتی دھول ،تیز اور شوخ رنگوں کے کپڑے پہنے عورتیں، کلائیوں سے کہنیوں کے اوپر تک پھنسی پھنسی چوڑیاں۔ راجستھانی پگڑیاں پہنے دیہاتی مرد،کچھ فاصلوں پر برساتی پانی سے بھر ے ٹّبے اور ان پر پانی پیتے مویشی ۔نومبر کے باوجود دھوپ میں تیزی تھی۔یہ سارا غالب ہندو اکثریت کا اور مندروں سے بھرا ہواعلاقہ ہے جو چھوٹے بڑے دیوی دیوتاؤں سے منسوب ہیں۔ راجستھان ہندوستان کا سب سے بڑا سبزی خور صوبہ ہے ۔ 75 فیصد سے زائد آبادی ویجی ٹیرین ہے۔ یہ بات بھی مزے کی ہے کہ راجپوت سبزی خور ہرگز نہیں تھے۔چنانچہ راجہ ، مہاراجہ عام طور پر شکار بھی کرتے تھے اور گوشت بھی کھایا کرتے تھے۔صحرائی آب و ہوا، پانی کی کمی ،مذہبی پابندیاں،گرمی ، اور کھانے کو دیر تک محفوظ رکھنے کی کوشش ۔ان سب نے مل جل کر راجستھانی کھانوں کو مخصوص ذائقے دئیے ہیں ۔ راجستھان کے اس سفر میں کم لیکن ہندوستان کے باقی سفروں میں ان میں سے کئی ڈشز سے استفادے کا موقعہ ملا ۔مجھے یہاں بیسن کی ڈشز بہت کثرت سے نظر آئیں۔بیسن کی چوکورخشک ٹکیاں’ ’ گٹا ‘‘ کہلاتی ہیںاور وہ بہت سے سالنوں میں ڈالی جاتی ہیں۔لال ماس کا رنگ راجستھانی مرچوں کی وجہ سے گہرا سرخ ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بالو شاہی ، امرتی بھی اصل میں راجستھانی سوغات ہیں۔سنیکس میں’ ’پیاز کچوری ‘‘ مزے کی چیز ہے ۔ اودے پور سے اجمیر کا سڑک سے راستہ لگ بھگ چھ گھنٹے کا ہے ۔ اب کے حالات معلوم نہیں لیکن اس وقت سڑک کی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی ۔ راستے میں ہم شاید’ ’ دیو گڑھ ‘‘ اور ’ ’ بیواڑ ‘‘ پر کچھ سستانے کچھ کھانے اور چائے کے لیے رکے تھے۔ہم سفروں کی خوش طبعی نے سفر کی تھکن کا احساس ہونے ہی نہیں دیا۔سہ پہر کے قریب اجمیر کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوئے ۔کھیتوں اور میدانوں کی جگہ کچی بستیوں نے لی ۔دونوں طرف اشتہاراتی بورڈز نمایاں ہونا شروع ہوئے ۔اوربالآخر ہم اجمیر میں داخل ہوگئے ۔پہلی نظر میں اجمیر ایک نیم قصباتی سا شہر محسوس ہوا۔ہم درگاہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کا پتہ پوچھ کر سیدھے اس طرف چلے ۔ اندازہ یہی ہوا کہ ہم پرانے شہر کے اندر داخل ہورہے ہیں ۔ وہی دو طرفہ بازار، تنگ سڑکیں ، تھڑے اور ان کے اوپر چھوٹی بڑی دکانیں ۔ وہی ہجوم ۔ سچ یہی ہے کہ اس شہر کو ایک درویش نے توجہ کا مرکز بنادیا ورنہ اس مٹی میں کیا رکھا تھا ۔ مٹی تو سب ایک جیسی ہوتی ہے ۔کیا اجودھیا ، کیا لاہور ، کیانظام الدین اور کیا اجمیر ۔ انسان ہی تو کسی بھی شہر کسی بھی مٹی کو قابل ذکر قابل فخر بناتے ہیں۔ درو دیوار اور عمارات میں کیا دھرا ہے بھئی ۔مر کر بھی انسان کی عمر زیادہ ہے۔طبعی عمر نہیں حقیقی عمر۔ ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما