کہتے ہیں کہ شہنشاہ نیرو کے زمانے میں سلطنت روم میں سخت قحط آن پڑا۔ نیرو کا 13سالہ دور حکومت54)سے 68عیسوی) اسکی اپنی والدہ و اہلیہ کے قتل، بے جا اسراف، شہر روم کی آگ زنی کیلئے تاریخ میں خاصا بدنام ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کیلئے عمائدین نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ بحری جہازوں کو مصر اور دیگر ممالک میں بھیج کر گندم منگوائی جائے، تاکہ فاقہ زدہ عوام کو راحت مل سکے۔ جہاز روم سے روانہ تو ہوئے، مگر واپسی پر ان پر گندم کے بجائے، مصر کے ریگستانوں کی باریک ریت لدی ہوئی تھی او راسی کے ساتھ شہنشاہ نے روم میں عظیم الشان میلہ کے انعقاد کا اعلان کر کے عوام میں جوش بھر دیا۔ نیرو نے عمائدین کو بتایا کہ گندم کے چند ایک بحری جہاز کہاں تک لاکھوں فاقہ زدہ عوام کی بھوک مٹا سکتے تھے، وہ جلد ہی بغاوت پر اتر آتے۔ مصری ریت بچھا کر شہر کی عالیشان بیضوی تماشاہ گاہوں یعنی کلوسیم کو میلہ کیلئے تیار کیا گیا۔ ان کلوسیم کے کھنڈرات ابھی بھی فلسطین، ترکی، اور یورپ میں معتدد جگہوں پر موجود ہیں۔ بھوک سے بے حال لڑکھڑاتے عوام میلہ اور خونین کھیل تماشے دیکھنے کیلئے کلوسیم پہنچنے میں سبقت لینے کیلئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ کھیل کیا تھے، غلاموں کو آپس میں یا بھوکے درندوں سے لڑوایا جاتا۔ جب و ہ ان کو چیر پھارڑ کررہے ہوتے تو عوام کا جوش دیدنی ہوتا تھا۔ غلام عورتوں کو ایک بڑے سے لوہے کے توے کے اوپر برہنہ رکھا جاتا اور اس کے نیچے ہلکی آنچ پر آگ جلائی جاتی۔ جوں جوں تپش ان عورتوں کے تلووٗ ں کو چھوتی، وہ غیر اختیاری طور پر اچھل کود کرتی۔ بریکنگ ڈانس کا یہ نظارہ تب تک تماشائیوں کو محفوظ کرتا تھا، جب تک آگ ان غلام عورتوںکے گوشت اور ہڈیوں کو چاٹ نہیں جاتی۔ نیرو آج بھی زندہ ہیں۔ جہاں اسوقت پوری دنیا کو کرونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور معاشی بحران عوام کو بے حال کرنے کیلئے دستک دے رہا ہے، بس اسی دوران بھارت کی نریندی مودی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ 870کروڑ روپے کے عوض16489لائٹ مشین گنیں خریدنے کا ایک دفاعی سودا کیا۔ جس دن پورے ملک میں لاک ڈائون کا اعلان کیا گیا، اسی روز لگ بھگ 20 ہزار کروڑ یعنی دوسو بلین روپے کی لاگت سے دارالحکومت نئی دہلی کیلئے ایک نئے ماسٹر پلان کا اعلان کیا گیا۔ جس کے تحت پارلیمنٹ ہاوٗس وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور سینٹرل سیکرٹریٹ کیلئے نئی عمارتیں تعمیر ہوںگی۔ بتایا گیا کہ برطانوی دور اقتدار کے دوران بنائی گئی یہ مشہور عمارتیں نارتھ بلاک، سائوتھ بلاک و پارلیمنٹ ہاوٗس اب سو سال پرانی ہو چکی ہیں۔ جس وقت حکومت کی ترجیحات اسپتالوں کا نظام بہتر بنانا اور لاک ڈائون کے درمیان عوام کے راشن پانی کی خیال رکھنا تھا، اس وقت خزانہ عامرہ کی رقوم مشین گن خریدنے اور دارلحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمران ہی کر سکتا ہے۔ پورے بھارت میں 1.3بلین آبادی کیلئے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں ۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے کے قریب ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔بھارت میں ہیلتھ ورکرز چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ان کو اسوقت 7لاکھ25ہزار حفاظتی سوٹ اور 6لاکھ N-95ماسک کی ضرورت ہے۔ اس کے علاہ ایک کروڑ تھری پلائی ماسک کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یکم فروری سے تین مارچ تک وزات صحت اور وزارت ٹیکسٹائل یہ طے نہیں کر پار ہے تھے کہ ان ماسکز اور سوٹ کی کیا تصریحات ہونی چاہئے۔ 19مارچ تک تو ویٹی لیٹرز کی ایکسپورٹ بھی بغیر روک ٹوک جاری تھی۔ شاید یہی حال جنوبی ایشیاء کے د یگر ممالک کا بھی ہوگا۔ بھارت میں وزیر اعظم مود ی نے اپنی عادت کے مطابق جس طرح اچانک لاک ڈائون کا اعلان کیا اس نے ڈیمانڈ ۔سپلائی چین کو بری طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ ہزاروں ، لاکھوں مزدو ر ، کاریگر اپنے کنبے ، چھوٹے بچوں اور خواتین سمیت ،شہروں سے نکل کر اپنے اپنے گائوں جانے کیلئے پیدل مارچ کر رہے ہیں۔ حکومت کی بے حسی ، پولیس کی بربریت ، ملک میں اشیائے خورد و نوش کی کمی نے ان مزدوروں کو شاید کرونا سے بھی بڑے انسانی المیے میں دھکیل دیا ہے۔ شہروں میں ان کے لئے ملازمت یا روزگار کے مواقع ختم ہوچکے ہیں ۔ صرف چار گھنٹے کا نوٹس دیکر لاک ڈاون لاگو کرنے سے غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ نے بھی اسی طرح 21 دن کا لاک آؤٹ نافذ کیا ، لیکن انہوں نے تین دن کا نوٹس دے دیا تاکہ عوام ضروریات زندگی سے محروم نہ ہوں اوروہ اپنے گھروں تک پہنچیں۔ جب حکومت بیرون ملک سے لوگوں کو لانے کے لئے ہوائی جہاز بھیج سکتی تھی، تو پھر ان غریب بے سہارا مزدوروں کیلئے بھی انتظامات ہوسکتے تھے۔اس سے بھی بڑا المیہ جو منتظر ہے وہ یہ ہے کہ شمالی بھارت کے کئی صوبوں میں گندم کی 328لاکھ ہیکٹر فصل کاشت کیلئے تیار ہے۔ جسمیں صرف پنجاب میں 130لاکھ ہیکٹر فصل تیار کھڑی ہے۔ سپلائی چین اور ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی سے اس فصل کا منڈیوں تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا ہے۔ بھارت کی ہیلتھ منسٹری کے ہیڈکوارٹر نرمان بھون میں وبائی امراض کی پیشگی اطلاع دینے کیلئے سینٹرل بیورو آف ہیلتھ انٹیلی جنس کا محکمہ کام کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس محکمہ نے جنوری میں ہی بھارت میں اس مرض کے پھوٹنے کی اطلاع دی تھی۔ بھارت کے معروف وائرلوجسٹ ڈاکٹر ٹی جیکب جان کے مطابق لاک ڈاون کرونا وائرس کے پھیلاو میں تاخیر تو کرسکتا ہے، مگر اس کا شرطیہ علاج نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون پر ہی تکیہ کرنا ایک دیوانے کے خواب کی طرح ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک نے قدرت کی طرف سے ان کو عطا کیا گیا وقت اور مہلت گنوادی۔ڈاکٹر جان کے مطابق اس وقت اس وائرس کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا، ہاں اسکی شدت میں کمی آسکتی ہے۔یاد رہے دنیا کے چند خطوں میں تباہی پھیلانے کے بعد دیگر وائرس یعنی H1NI اور سارس ابھی بھی موجود ہیں، مگر ان کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ اگر بھارت میں آدھی فیصد آبادی بھی اسکی زد میں آتی ہے، تو اس سے تین ملین اموات کا خدشہ ہے۔ بھارت اور جنوبی ایشیا ء کے دیگر ممالک میں صحت عامہ کے تئیں وار روم اسٹریٹیجی نہیں بنتی ہے۔ جس طرح دفاعی معاملات کے تئیں حساس ادارے آئے دن سیمولیشن اور مشقیں کرتے رہتے ہیں، اس طرح کی ایکسرسائز صحت و وبائوں کے تعلق سے نہیں کی جاتی ہیں۔ جبکہ اب دنیا ایک حیاتیاتی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اس شعبہ کو نظر انداز کرنا اور اس کو نیشنل سکیورٹی اپیریٹس میں شامل نہ کرنا بس ایک حماقت ہی ہے۔ ڈاکٹرجان کا کہنا ہے گو کہ چین نے بڑی حد تک کرونا وائرس کے چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، مگر اس وقت دنیا کو جرمنی اور جنوبی کوریا کے اقدامات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کوریا نے تو جنوری کی ابتدا ہی میں بچائوتدبیریں اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان دونوں ممالک میں سرکاری اور نجی اداروں کا اشتراک قابل رشک ہے۔ دونوںاداروں نے ٹیسٹنگ سینٹروں کا جال بچھایا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں تو ابھی تک بس تھوڑی سی ہی آبادی کی ٹیسٹنگ ہوئی ہے اور بیشتر ان افراد کی جو باہر سے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا وائرس سے جلدی چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موسم گرما کی آمد کے ساتھ اس کے پھیلنے کی رفتار رک سکتی ہے، مگر خزاں اور پھر سردیوں میں یہ پھر سر اٹھا سکتا ہے۔ اس کے ویکسین پر کام جار ی ہے ، مگر ٹیسٹنگ وغیرہ کے مراحل سے نکل کر مارکیٹ میں آنے میں ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی ایشائی ممالک میں پرائمری ہیلتھ کی سہولیات ضلع سطح تک اب خاصی بہتر ہیں، مگر ثلاثی کیر، جو وبائی امراض کے وقت کارگر ہوتی ہے کا فقدان ہے۔یہ چونکہ سنگل اسٹرینڈ کا وائرس ہے ، مختلف علاقوں میں یہ افزائش کے دوران اپنے آپ کو تبدیل کردیتا ہے۔ ڈاکٹرصاحب کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وائرس کے خلاف جنگ طوالت کھینچ سکتی ہے۔ چند سال قبل جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ملک میں اسپتالوں کا جال بچھانے کا کام شروع کیا اور غیر ملکوں میں بھی اسپتالوں کو امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا ، تو ملک میں اپوزیشن نے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس وقت ترکی میں 50ہزار نفوس پر ایک اسپتال ہے اور پوری آبادی ہیلتھ انشورنس کے دائرہ میں آتی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کے سربراہان کیلئے بھی لازم ہے کہ ترکی کی اس سعی سے سبق حاصل کرکے صحت عامہ کو ترجیحات میں شامل کرکے اس کو بھی قومی سلامتی کا ایک جز بنالیں۔