عمران خان کے دیئے گئے سہانے سپنوں میں سے جو خواب مدتوں سے میری پلکوں میں آویزاں ہے وہ یکساں تعلیم کا خواب ہے۔ اس خواب کو پلکوں میں سجانے کا اہم سبب یہ ہے کہ ہم نے اسے اپنے ہی خواب کی تعبیر جانا۔ ہمارا تعلیمی خواب کیا تھا اس پر تو بعد میں گفتگو کرتے ہیں پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ’’دی نیوڈیل‘‘ کے نام سے جس تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا ہے اس پر ایک نظر ڈال لیں۔ اٹھارویں دستوری ترمیم کے بعد تعلیم وفاقی نہیں صوبائی سبجیکٹ بن چکا ہے تا ہم مرکز اور تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کی بنا پر ہم کسی ایسی تعلیمی پالیسی کی آس لگائے بیٹھے تھے کہ جو قومی امنگوں کی آئینہ دار ہو گی اور جس میں سارے ملک کے لیے قومی زبان میں یکساں تعلیم کا جامع منصوبہ شامل ہو گا۔مرکز سے تو ابھی کسی تعلیمی پالیسی کا اعلان ہوا نہیں مگر گزشتہ روز ’’دی نیو ڈیل‘‘ کے عنوان سے وزیر اعلیٰ پنجاب نے جس تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں دوچار مبہم سی کٹی پھٹی اور گھسی پٹی باتیں ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ پرائمری تک اردو میں تعلیم ہو گی ا ور انگلش کو بطور مضمون پڑھایا جائے گا۔ تقریباً یہی کچھ تو اب بھی پنجاب کے سرکاری سکولوں میں ہو رہا ہے۔ مڈل لیول پر سائنس، آرٹس اور ریاضی کے رجحانات متعارف کروائے جائیں گے اور ’’انصاف آفٹر نون سکول‘‘ پروگرام کے ذریعے سکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کو تعلیم ملے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اعلان میں یہ واضح نہیں کیاگیا کہ کیا دوہرا طبقاتی نظامِ تعلیم ختم کر دیا گیا ہے؟ کیا ’’انگلش میڈیم‘‘ سکولوں میں بھی اب پرائمری تک اردو ہی ذریعۂ تدریس ہو گا؟ کیا تمام سرکاری و غیر سرکاری سکولوں کے لیے یکساں نصاب ہو گا یا اپنی اپنی پسند کے مطابق دیسی، یورپی اور امریکی نصاب ہائے تعلیم رائج رہیں گے؟ کیا اسی پرائمری والی تعلیم کا دینی مدارس میں بھی اہتمام کیا جائے گا؟ ایسی کوئی وضاحت جناب بزدار کی ’’دی نیو ڈیل‘‘ میں موجود نہیں۔ عمران خان کی ’’یکساں تعلیم‘‘ سے ماہرین تعلیم اور عوام یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ ترقی یافتہ دنیا کی طرح یہاں بھی کم از کم سکینڈری لیول تک ایسا یکساں نصابِ تعلیم اپنی قومی زبان میں لایا جائے گا جسے سرکاری و غیر سرکاری اور دینی مدارس میں بھی رائج کیا جائے گا۔ یکساں نصاب تعلیم کے ذریعے ہی یکساں سوچ رکھنے والی قوم پروان چڑھتی ہے۔ 1947ء سے لے کر 2017ء تک 9تعلیمی پالیسیاں منظرِ عام پر آ چکی ہیں مگر حقیقی عمل درآمد کسی ایک پالیسی پر بھی نہیں ہوا۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو تعلیم کی اہمیت کا کماحقہ اندازہ تھا۔ اس لیے ایک نوزائیدہ مملکت کے ہزاروں مسائل و معاملات کے باوجود انہوں نے کراچی میں پانچ روزہ تعلیمی کانفرنس بلائی جس کے کنوینئر قائد خود تھے۔ 27نومبر 1947ء سے لے کر یکم دسمبر تک یہ کانفرنس جاری رہی۔ قائد اعظم کے ہی زیر صدارت تعلیم کے چار بنیادی ستون طے کر لیے گئے۔ اس پہلی تعلیمی پالیسی کے مطابق پاکستانی بچوں کو دینی، سائنسی، سماجی اور فنی تعلیم دینے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا۔ قائد کے وژن کے مطابق تعلیم کا نقشہ مرتب کر دیا گیا مگر بدقسمتی سے قائد اعظم کے انتقال کے بعد اس تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ تب سے لے کر اب تک ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہمارے قول اور فعل میں کھلا کھلا تضاد ہے۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور میاں نواز شریف سب نے اپنی اپنی تعلیمی پالیسیاں دیں مگر کسی بھی منصوبے کو اس کی روح کے مطابق عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ 1947ء کے بعد جنرل ضیاء الحق کے ابتدائی زمانے میں فروری 1979ء میں تعلیمی پالیسی لائی گئی جو بڑی حد تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شایانِ شان اور عالمی معیارِ تعلیم کے مطابق تھی اسی تعلیمی پالیسی میں طے کیا گیا کہ سارے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری سکولوں اور دینی مدارس کے لیے اردو میں یکساں نصاب تعلیم ہو گا۔ اسی پالیسی کے مطابق نیا نصاب سال بہ سال پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک رائج ہو گا اور 1989ء میں صرف اور صرف اردو میں میٹرک تک کے امتحانات لیے جائیں گے۔ ان دنوں ایچی سن کالج کے پرنسپل عبدالرحمن قریشی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ پالیسی واضح اور حکم سیریس ہے اس لیے ہمیں بھی یکساں نیا نصاب ہی رائج کرنا ہو گا۔ مگر پھر وہی ہوا جو بدقسمتی سے ہمارا ’’قومی شعار‘‘ بن چکا ہے۔ جب ایلیٹ کلاس نے دیکھا کہ ان کے بچے بھی وہی سلیبس پڑھیں گے جو غریب کلاس کے بچے پڑھیں گے تو وہ پریشان ہو گئے۔ نیام نظامِ تعلیم ان کی طبقاتی برتری کے خاتمے کی طرف پہلا قدم تھا۔ طبقاتی تعلیم کی دلدادہ سماجی کلاس اس تعلیمی پالیسی کو سبوتاژ کرنے پر کمربستہ ہو گئی۔ یوں کئی جرنیلوں، بزنس مینوں، سول افسروں نے مل کر کوشش کی اور یہاں بھی ’’تعلیمی نظریۂ ضرورت‘‘ ایجاد کر کے حکومتِ وقت سے چند انگلش میڈیم سکولوں کے قیام کا پروانہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد بالخصوص محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں انگلش میڈیم سکولوں کا فلڈ گیٹ کھلا تو گلی گلی اور کوچے کوچے ’’انگلش میڈیم‘‘ سکول کھل گئے۔ یوں تعلیم کا ایسا بڑا غرق ہوا کہ اب الاّ ماشاء اللہ طلبہ و طالبات کو انگریزی آتی ہے نہ اردو اور نہ ہی مضامین پر انہیں عبور حاصل ہے اور نہ ہی کسی تعلیمی شعبے میں کوئی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ممتاز محقق، مصنف اور کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود سیکرٹری تعلیم تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ اچھا ہوم ورک کر کے اور دینی مدارس کے معروف علمائے کرام کو اعتماد میں لے کر یکساں نصاب تعلیمی کا ایک ایسا منصوبہ وضع کر لیا تھا جس کو دینی مدارس رائج کرنے پر دل و جان سے آمادہ ہو گئے تھے مگر پھر وہی ہوا جو پہلے ہوتا چلا آتا تھا۔ میاں صاحب کی اس زمانے کی کابینہ کے بعض وزراء نے پالیسی سٹڈی کرنے کے بہانے منصوبہ لیا اور پھر اسے سردخانے میں ڈال دیا۔ تاہم ہمیں نئے پاکستان میں یہ توقع نہ تھی اور قوم کو اعتماد تھا کہ آئے گا عمران خان اور فرمان قائد کے تحت اردو کو بحیثیت سرکاری زبان نافذ کر دے گا۔ آئے گا عمران خان اور سائلوں کو گھر کی دہلیز پر انصاف ملے گا، آئے گا عمران خان اور بیورو کریسی کو نکیل ڈالے گا، آئے گا عمران خان اور سی ایس ایس کا امتحان اردو میں کر دے گا، آئے گا عمران خان اور ہماری غلامی کے ہر نقش کہن کومٹا دے گا اور آئے گا عمران خان اور ہر امیر غریب کے لیے یکساں تعلیم رائج کر دے گا۔ مگر وائے افسوس! کہ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ عمران خان کی تقریروں سے ہم نے جو وژن حاصل کیا تھا اس کے مطابق جاپان کی ترقی کا راز یعنی اپنی زبان میں ایک جیسی تعلیم کو رائج کیا جائے گا۔ جرمنی کے انداز میں سائنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو عام کیا جائے گا کیونکہ دنیا میں ہنر مندوں کی بہت مانگ ہے۔ 2009ء سے 2013ء تک پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اور گزشتہ دور میں کے پی کے میں پی ٹی آئی نے سرکاری سکولوں میں انگریزی میڈیم رائج کر کے تعلیم کو بے حد نقصان پہنچایا۔ اس ’’انگلش میڈیم‘‘ کی بناء پر 40سے 50فیصد تک طلبہ و طالبات سکول چھوڑ گئے تھے۔ اسی طرح کا کوئی تجربہ کر کے طلبہ کو مزید مشقِ ستم بنانے سے اجتناب کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی اعلان کردہ مریل اور مبہم سی تعلیمی پالیسی میں عمران خان کے یکساں تعلیم کے خواب کی ادنیٰ سی جھلک بھی نظر نہیں آئی۔ عمران خان واضح کریں کہ کیا یہی ان کے خواب کی تعبیر ہے۔ ع کیا یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا