آج پوری دنیا دہشت گردی اور خوف و ڈر کے سایہ میں جی رہی ہے، ہر ملک کی قدریں اور وہاں کے باشندوں کی جانیں اچانک ہونے والے جرائم اور قتل وخون سے معلق ہیں، درخت کا ہر پھل کڑوا کسیلا ہوتا جارہا ہے، بلکہ ا س کے جراثیم اور مسموم فضا پورے ماحول کو زہر آلود کر رہی ہے،چمن کا ہر پھول بے سود اور ہر سکہ کھوٹا ہوتا جارہا ہے،بہ مشکل ہی کہیں کوئی ایسی جگہ دستیاب ہے جو آہنی ذرات اور کیمیکل سے محفوظ ہو، کبھی یہ کام بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے، تو کبھی اسے شخصی طور پر انجام دے کر پوری انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل ہتھیار اور اوزاروں کی غلطی نہیں؛ بلکہ یہ ایک گندی سوچ و فکر اور ذہنی فتور کا معاملہ ہے، جس کے نتیجہ میں باری باری مذاہب اور سماجی طبقات کچلے جاتے رہے ہیں، تو اب اسلام اس کے نشانے پر موجود ہے، اسے جدید اصطلاح میں ’’اسلامو فوبیا ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ فوبیا ہر اس چیز کی تعبیر ہے جو انسان کو ذہنی غذا کے طور پر دی گئی ہو، خواہ وہ اسکول و کالج کے نصاب کے تحت ہو یا معاشرتی زندگی میں طرز بود وباش سے ہو، یہ نفرت و بغض کی ایک ہوا ہے جو کسی بھی خاص گروہ کے خلاف نشو و نما پاتا ہے، اس کی تازہ مثال نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی ہے۔ نیوزی لینڈ میں اسلام ایک بڑھتا ہوا مذہب ہے، عموما اس کے بارے میں معتدل رائے رکھی جاتی ہے، خود حکومت نے وہاں کی ایک اسلامی انجمن کو تمغہ سے نوازا تھا، بعض افراد وہاں کی سیاست میں بھی اہم رول رکھتے ہیں؛ لیکن ظاہر ہے کہ فاسد خیال اور اسلام دشمنوں کو اسلام کی سلامتی اور مسلمانوں کی شانتی کیوں کر راس آنے لگی؟ یہی وجہ ہے کہ 15/03/2019 بروز جمعہ کو جب سبھی نماز جمعہ کی تیاری میں تھے، اسلام کے پروانے خدا تعالی کی پکار پر لبیک کہہ رہے تھے، لوگ کشاں کشاں دربار الہی کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے؛ کہ تبھی وہاں کرائسٹ چرچ (یہ نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرہ کے مشرقی ساحل پر واقع ہے، جو انگلش ورثہ کے طور پر مشہور ہے، خوبصورتی میں یہ اپنی مثال آپ ہے) کی دو مسجدوں میں دہشت گردانہ حملہ کیا گیا، آٹو میٹک مشین گن سے فائرنگ کی گئی، یہ حملہ اسی قدر وحشیانہ اور درندگی سے تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے سب سے معزز گھر اور لا مکاں کے مکین کو خون آلود کردیا گیا، معصوموں کا خون تیرنے لگا اور صفیں سرخ رنگ سے لت پت ہوگئیں، نہتے مسلمان چیختے اور اپنے رب رحیم کی رحیمی کو یاد کر رہے تھے، تو بہت سے حواس باختہ ہو کر فائرنگ کے مد مقابل ہوگئے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اسے تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتے ہوئے صاف صاف اعتراف کیا ہے کہ یہ ایک دہشتگردانہ حملہ تھا،ساتھ ہی انہوں نے تمام مسلمانوں کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے ان کے حق میںآواز بلند کی، اور یہ تسلیم کیا کہ یہ ملک جس قدر ان کا ہے اتنا ہی مسلمان یا مہاجرین کا ہے؛ لیکن اس کے باوجود مغربی میڈیا اسے دہشت گردی ماننے سے انکار کر رہا ہے، بلکہ اس کا کہنا ہے کہ یہ ایک سر پھرے کی حرکت ہے، اسے کسی مذہب اور دہشت سے نہیں جوڑنا چاہئے، اس سے زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ عموما دنیا کی قیادت خاموش ہے، فرانس میں حملے کے بعد جس طرح عالمی طاقتوں نے اور خود مسلمانوں نے بیدار مغزی دکھائی تھی، دہشت کے خلاف اتحاد کی آواز بلند کی تھی، اور لبرل ازم کے ماروں نے اسلام و مسلمان کو دنیا کیلئے خطرہ بتانے کا دور جاری ہوگیا تھا، آخر اس حملے کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ کیا مسلمانوں کا خون رائیگاں ہے، اس کی سانسوں پر ہر رہزن کا حق ہے؟ اقوام متحدہ کی للکار ایسے وقت پر کہاں غائب ہوجاتی ہے؟ نیوز چینلوں اور ڈبیٹس پر یہ موضوع بحث کیوں نہیں بنتا؟ یہ تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا کہ اسلام نہیں بلکہ صلیبی و صیہونی فکر اس دنیا کیلئے خطرہ ہے۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی گردنیں تشتری میں سجائی جارہی ہیں، بندوق کی نوک پر بھونا جارہا ہے، ہم افغانستان کی پندرہ لاکھ لاشیں دیکھ چکے، عراق کے بارہ لاکھ یا اس سے زائد نعشوں پر ماتم ہو چکا، سیریا میں جل رہے لاکھوں لاشوں پر روزانہ فاتحہ پڑھتے ہیں، مصر اور سعودی عرب سے لیکر لیبیا اور یمن میں ہر دن مسلم جسموں کے چیتھڑے کئے جا رہے ہیں، ان کا مثلہ کر کے ریگستان کے حوالہ کیا جا رہا ہے، بئر معنونہ جیسے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے رہے ہیں، اس کے باوجود مسلمان کبھی اقوام متحدہ کی گہار لگاتا ہے، کبھی وہ عالم عربی جس پر زمانہ ہوا فاتحہ پڑھا جا چکا ہے اور جس کی نعش سے سڑاند کی بو آنے لگی ہے۔ اس سے مدد و نصرت کی بھیک مانگتے ہیں، وہ یورپ جس نے پوری دنیا کو دو عظیم عالمی جنگیں سوغات میں دی، جس نے فرانس، برطانیہ اور اطالوی سامراج میں دنیا کو زنجیر پہنا دیا تھا، ہر انسان کو اپنا غلام بنا کر آخر اسے اپنی چوکھٹ کا پالتو جانور بنا کر چھوڑ دیا تھا،خود ہمارا ملک ہندوستان ہندوتوا کی دہائی دیتا ہے، اور مسلم جانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتا ہے، ان کی موت پر جشن مناتا ہے، کیا اس سے ہم مدد مانگتے ہیں؟ یا ایسا تو نہیں کہ ہم بھول گئے ہوں: کفر کی ملت ایک ہے، اس کے نام بدلے جا سکتے ہیں، ان کی پہچان بدلی جا سکتی ہے؛ لیکن ان سب کا محور مسلم جان کا شکار اور اسلام کی بیخ کنی ہی ہے۔ ضرورت ہے کہ عالمی منظر نامہ پر نظر رکھی جائے، لوگوں میں اٹھتے جذبہ محبت اور حق پسند جماعت کی ہمدردی کے ساتھ دعوت دین کی طرف پیش قدمی کی جائے، غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی جائے، اورنیوزی لینڈ حکومت نیز حق پسند لوگوں کے اسلام کے تئیںدرد دل ومحبت کے احترام اور بسر وچشم قبول کے ساتھ یہ سوال بھی کیا جائے کہ اس اسلامو فوبیا کو جنم دینے والا امریکہ خود امن کی خاطر کیوں دنیا پر نفرت کی سیاست کرتا ہے، ڈونالڈ ٹرمپ اور ساہمنس جیسوں کی شر انگیز فکریں کیوں برداشت کی جاتی ہیں؟ کیا انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے ہی ایٹم بم کے ذریعہ ہیرو شیما کو تباہ کیا تھا اوروہاں کی نسلیں تباہ کردی تھیں، طیب اردوغان کا وہ سوال بھی اٹھانا چاہئے کہ جب کوئی صلیبی یا صہیونی اور بدھسٹ حملہ آور ہو تو اسے اور ا سکے مذہب کو بھی دہشت گرد کیوں نہیں کہتے؟ اور جب کسی مسلمان کا نام آئے تو کیوں بانچے کھل جاتی ہیں؟ اور پورے اسلام کو ہی دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے؟ کینڈل مارچ کیوں نہیں نکالے جاتے؟ احتجاجات کیوں درج نہیں کئے جاتے؟ (بشکریہ:روزنامہ امن بھارت )