نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے میں 49 افراد شہید ہو گئے ہیں۔ حملہ آور سفید فام آسٹریلوی اور غیر مسلم بتایا گیا ہے۔ مقامی رپورٹس کے مطابق ڈین ایونیو پر واقع مسجد النور اور لن ووڈ روڈ مسجد پر حملہ کرنے سے پہلے حملہ آور نے فیس بک پر لائیو کیم آن کیا اس وجہ سے پوری دنیا نے اس کی سفاکی اور خون ریزی کا دہشت ناک منظر براہ راست دیکھا۔ حملہ جمعہ کی نماز سے کچھ دیر پہلے کیا گیا۔ اس وقت کرکٹ سیریز کھیلنے کے لیے بنگلہ دیش کی ٹیم کرائسٹ چرچ میں موجود تھی اور بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے کئی کھلاڑی حملہ کی زد میں آنے والی ایک مسجد کے قریب تھے۔ بنگلہ دیشی کھلاڑی تمیم اقبال نے ٹویٹ پر بتایا کہ وہ جان بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ نے آئندہ میچ روک کر دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جانسڈا آرڈرن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملہ دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ آسٹریلوی وزیراعظم سکاٹ ماریش نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کے ہیبت ناک واقعہ کے بعد وہ پورے برطانیہ کی طرف سے نیوزی لینڈ کے عوام سے افسوس کا اظہار کرتی ہیں اور ان کی دعائیں حملے میں متاثر ہونے والے افراد کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ میں دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد پر دہشت گردانہ حملہ نہایت تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔ یہ حملہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے جسے ہم مسلسل دہراتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہماری ہمدردی اور دعائیں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’’مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پس پردہ نائن الیون کے واقعات کے بعد مغرب میں پرورش پانے والا اسلاموفوبیا ہے۔‘‘ پاکستان نے دہشت گردی کی ہر شکل کو دیکھا ہے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے میں ساتھ دینے کا کہا تو اس وقت یہ بات سمجھ آنے لگی تھی کہ افغانستان میں تشدد کے بیج بونے والے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اب پاکستان کے لیے مسائل پیدا کریں گے، ایسا ہوا۔ امریکہ نے بھارت کو خطے میں اپنا سٹریٹجک اتحادی بنانے کا اعلان کیا اور ایسے فیصلے کئے جس سے بھارت کے عالمی اثرورسوخ اور طاقت میں اضافہ ہو سکے۔ بھارت کے کہنے پر تحریک حریت کشمیر سے وابستہ معاملات کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کے طور پر دیکھا گیا۔ 2009ء میں پاکستان کے دورہ پر آئی سری لنکن کرکٹ ٹیم کے قافلے پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ اگرچہ سری لنکا کے تمام کھلاڑیوں کو بچا لیا گیا مگر بہت سے دوسرے مقامی افراد مارے گئے۔ سری لنکا کا موقف پاکستان سے ہمدردانہ رہا مگر وہ بھی کرکٹ بحالی میں کام نہ آ سکا۔ گزشتہ چند برسوں میں زمبابوے اور ویسٹ انڈیز بورڈز نے مثالی تعاون کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے متعدد آپریشن کیے۔ ہزاروں جوانوں نے جانیں قربان کیں۔ آج پاکستان اس قابل ہو چکا ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کرنے والے امریکہ نے مدد کی درخواست کر رکھی ہے۔ افغان امن عمل کا حصہ ہے اور پی ایس ایل ٹورنامنٹ میں کئی عالمی شہرت یافتہ کرکٹ کھلاڑی پاکستان میں کھیل رہے ہیں، پاکستان نے تن تنہا دہشت گردی، دشمن ممالک کے ہتھکنڈوں اور سازشوں کا مقابلہ کر کے ثابت کیا ہے کہ اس کا بیانیہ درست اور عالمی امن کے لیے مفید ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بجا نشاندہی کی کہ مغربی ممالک میں نائن الیون کے بعد اسلام دشمنی بڑھی ہے۔ مسلمانوں، ان کی اقدار اور عبادت گاہوں پر حملے اور نفرت میں اضافہ ہوا۔ مہذب ریاست کہلانے والے مغربی ممالک اس غیرانسانی سوچ کو فروغ پانے سے روک سکے نہ مسلمانوں کا تحفظ کرسکے۔ نیوزی لینڈ کا شمار پرامن ممالک کے حوالے سے دنیا کے دوسرے ملک میں ہوتا ہے۔ اگر ایسے پرامن ملک میں ایک سفید فام اسلحہ سے لیس ہو کرنہتے نمازیوں پر فائرنگ کردیتا ہے تو پھر امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں یہ صورت حال کس قدر خراب ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ان واقعات سے ہوتا ہے جن میں کسی راہ چلتی خاتون کا حجاب نوچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مسلمان ہونے پر لوگوں کو برا بھلا اور دہشت گرد کہا جاتا ہے اور جہاز سے صرف اس وجہ سے اتار دیا جاتا ہے کہ مسافر نے عربی میں کوئی دعا کی۔ مغربی دنیا تسلیم کرے یا نہ کرے اس کی اخلاقی اور انسانی اقدار تباہ ہورہی ہیں۔ قرآن کی توہین، خاکوں کی اشاعت اور اسلام کا مذاق اڑانے والے معاشروں میں امن ایک مصنوعی چیز ہے۔ جب تک عالمی سیاست کو چند ممالک کے مفادات کے تابع رکھا جائے گا مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ نیوزی لینڈ میں دہشت گردانہ کارروائی نیوزی لینڈ اور ان تمام مغربی ممالک کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر تعصب کا اظہار کرتے رہے۔ حالیہ واقعہ کے بعد مسلم دنیا منتظر ہے کہ مغرب اس بات کا اعتراف کرے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار امن پسند لوگ ہیں جنہیں بعض قوتیں اپنی داخلی خرابیاں اور آزادی کی تحریکیں دبانے کے لیے منفی انداز میں پیش کر رہی ہیں۔ پاکستان کے عوام کو نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ہمدردی ہے۔