اے خاصۂ خاصانِ رسل ؐوقت دعا ہے امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے رنگ و خوشبو ہی نہیں فطرت کے تمام تر مناظر کا تعلق ہمارے حواس کے ساتھ ہے۔ وہی کہ ’’دل تو میرا اداس ہے ناصر۔ شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے‘‘ بلکہ ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کی قیامت خیز دہشت گردی جس میں ایک شیطان صفت درندے نے پچاس مسلمانوں کو جمعہ پڑھتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا کئی بری طرح زخمی ہوئے یہ ایک آسٹریلوی عیسائی دہشت گرد کا حملہ تھا جس نے اپنی کیپ میں لگے کیمرہ سے ویڈیو میں سب کچھ دکھایا۔ اس جان سوز اور روح فرسا واقعہ نے مسلمانوں کے دل کاٹ کر رکھ دیے۔ ایک دم ایسا لگا جیسے بہار میں خزاں اتر آئی: ابھی بہار کا نشہ لہو میں رقصاں تھا کف خزاں نے ہر اک شے کے ہاتھ پیلے کیے روئوں میں اپنے دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں’’اتنے لوگوں کا نوحہ کون لکھے‘‘ مہذب دنیا کے ایک 28سالہ جنونی نے انسانیت کی تذلیل کی اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ یہ کونسی مردانگی ہے کہ نہتے نمازیوں پر فائر کھول دیا یہ تو بزدلی اور کمینگی ہے۔ یہ مذہبی تعصب اور کم ظرفی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ کہ نفرت اور دوغلی روایت نے ان کے دل پتھر کر دیے ہیں۔ پہلے تو 2001ء سے دبی دبی کروسیڈ جاری تھی جو ان کے شہریوں میں سرایت کر گئی ہے ناپاک خاکے بنانے والوں اور ٹرمپ کی پالیسیوں نے اس سوچ اور اپروچ کو انگیخت لگائی ہے۔نیوزی لینڈ تو ان کا اپنا دیس ہے ان کا ریمنڈ ڈیوس لاہور میں تین پاکستانیوں کو بھون کر چلا گیا۔ ہائے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ ہم نیچے لگتے چلے گئے ہم جھکنے میں عظمتیں تلاش کرتے رہے ہمیں اتنا بھی حق ہیں نہیں کہ ان کے ظلم پر آہ بھی کر سکیں: قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں بے حسی وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں اپنی بربادی پہ عبرت نہ ندامت کوئی زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں بات کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے مگر یہ سچ ہے کہ مسلمان خود اس حالت کو پہنچے ہیں ان کے اپنے مسلکی اور فروعی اختلافات نے انہیں پارہ پارہ کر دیا۔ باہمی لڑائیوں نے کہیں کا نہیں رہنے دیا یکجا ہونے کی کوئی سبیل نہیں: میر سیاہ ناسزا شکریاں شکستہ صف آہ وہ تیرنیم باز جس کا نہ ہو کوئی ہدف سوال تو بنتا ہے کہ ہم ایک کیوں نہیں ہو سکتے۔ اللہ بھی ایک رسول ؐ بھی ایک اور قرآن بھی ایک۔ اور پھر ہم ایک کیوں نہیں۔ ہمارے حکمران امریکہ اور برطانیہ کے غلام ‘ علماء بھی قصور وار جنہوں نے مسلمانوں کو پیار محبت کا سبق دینے کی بجائے فرقوں میں بانٹ دیا۔ انگریزوں کے ٹرینڈ پٹھو ہم پر حکومت کرتے رہے اور تو اور انہوں نے قائد کے فرمان کے برعکس کام کیا اور اردو کو سرکاری زبان بھی نہ بننے دیا۔ سیاستدان پرلے درجے کے کرپٹ نکلے لوٹ مار اقربا پروری اور من مانی سے ادارے تباہ ہو گئے لوگوں کو روٹی روزی کی پڑی ہوئی ہے جو کہ حکمرانوں نے ان سے چھین لی۔ قوم کمزور ہو گئی تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرو‘‘ہم خود بھی اپنے ساتھ مخلص نہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو چیٹ کر رہا ہے۔ پوسٹیں لگائی جا رہی ہیں کہ موم بتیاں جلانے والا مافیا کدھر ہے ۔ مسلمانوں کی شہادت پر ان کی موم بتیاں کدھر ہیں۔ ویسے پوچھنے والے یقینا معصوم ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ اس لبرل اور مذہب بیزار لوگوں نے موم بتیاں ہی نہیں خوشی کے دیے بھی جلائے ہونگے۔ جب اللہ دلوں پر مہر لگا دیتا ہے تو کسی کو کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک بات توجہ طلب ہے کہ نیوزی لینڈ کے واقعہ کی ٹائمنگ بھی بڑی اہم ہے کہ اس وقت اسرائیل نے راکٹ حملے کا بہانہ کر کے غزہ پر چڑھائی کر دی اور نہتے لوگوں پر بمباری کی ہے۔ کچھ اور باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ انڈیا کے طیارے کے ساتھ اور طیارہ بھی گرا تھا اور وہ اسرائیل کا تھا اور اس کا پائلٹ بھی ہمارے قبضہ میں ہے۔ ایک chaosپیدا ہو چکا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کو آنکھیں کھول کر بیدار ہو جانا چاہیے۔ ساری دنیا میں مسلمان دہشت گردی کا شکار ہیں بلکہ باقاعدہ ان کی نسل کشی کی جاری ہے۔ مسلمان تو بہادر ہوتا ہے اور موت سے نہیں ڈرتا۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ دہشت گردی کرنے والے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہی موقف ہمارے وزیر اعظم عمران خان کا ہے۔ اہل مغرب کو سوچنا ہو گا کہ وہ ایک طرف امن کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ مسلمانوں کی کلنگ کر رہے ہیں۔ پچاس لوگوں کو شہید کرنے والا مسکراتے ہوئے عدالت میں پیش ہوتا ہے اور اپنی درندگی اور غیر انسانی عمل پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ وہ علی الاعلان اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر مسلمانوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اگر انہوں نے اس کو سزائے موت نہ دی تو خدشہ ہے کہ یہ دہشت گردی مزید پھیلے گی۔ اہل مغرب کے تبصرہ نگار بھی بڑے مطمئن نظر آتے ہیں۔ چراغ سے آگ بھی لگ جاتی ہے۔ فی الحال تو پوری دنیا کے مسلمان اس اندوہناک واقعہ پر غمزدہ ہیں۔ نیوزی لینڈ میں بھی اس علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ یقینا اس قسم کے اور واقعات ہونے کی بھی توقع ہے کہ انتہا پسند عیسائی اور یہودی بھی اس بدبخت حملہ آور کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ جس چیز کو وہ چھپاتے تھے وہ اب چھپ نہیں رہی۔ قرآن تو صادق و معتبر رہے کہ واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ یہودو نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اب ان کے عمل سے ہم پر کھل رہا ہے اور ہماری غلط فہمی دور ہو رہی ہے۔ کاش کوئی سوچے اور اٹھے اور شیعہ سنی کو بھی یکجا کر دے اور دوسرے تفرقوں کو بھی مٹادے۔ پہلے ہی وہ ایک ایک کر کے سب کو مار رہے ہیں۔ اب کائونٹر کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ سہک سہک کر مرنے سے بہتر ے بہادروں کی طرح مقابلہ کیا جائے۔ ہم تو نوحہ خوانی بھی اکٹھے ہو کر نہیں کرتے۔ آنسوئوں کی زبان تو کمزور اور لاچاروں کی ہوتی ہے۔ یہی وقت عیسائیوں پر بھی آیا تھا تو ان کے ہی ایک شاعر نے کہا تھا کہ ریشمی پردوں کے پیچھے آنسو بہانے اور بچوں سے دعائیں کروانے سے کچھ نہیں بنے گا تم اس قوم کے سامنے ہو جس کے لئے آفتاب و ماہتاب چراغوں کی طرح ہیں اور وہ گھوڑے کی پشت سے نہیں اترتے۔ شاید سب کچھ الٹا ہو چکا ہے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ آپ فیصلہ کریں وہ مدد کو آتا ہے: فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی