بحران میں قیادت کس طور بروئے کار آتی ہے ، یہ ہمیں نیوزی لینڈ نے بتایا، طوفانوں سے قومیں کس طور نبرد آزما ہوکے اور نکھر کے ظہو رکرتی ہیں ، یہ بھی نیوزی لینڈرز نے آشکار کر دکھایا،دراصل نیوزی لینڈ آگ میں آگرا تھا، قیادت او رقوم نے مل کرمگر اس آگ کو گلزار میں بدل ڈالا۔ جناب عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے مغرب کی مثالیں دیں اور ہمارے طرزِ حکومت کے خلاف تنقید کی ایک دیوار کھڑی کر دی۔ وقت میسر اور مہلت ان کے پاس موجود ہے ، انتخاب او رعمل کا فیصلہ مگر انھوں نے خود کرنا ہے ۔ وہ ابھی تک مگر محض بات کرتے ہیں ، جبکہ زندگی صرف عمل کی زبان جانتی ہے ۔ کاش زندگی اتنی سہل ہوتی کہ یہ سوشل میڈیا پر کی گئی باتوں اور بیانات سے نکھر سکتی ، یہ مگر لہو مانگتی ہے ، عمل اور ریاضت کا لہو۔ وہ لہو جو نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈرا نے کرائسٹ چرچ نامی شہر کی مساجد میں لگی آگ پر ڈال کے نیوزی لینڈ کا وقار اور اعتبار بچا لیا۔ آپ سوچئے، اک عام پاکستانی نیوزی لینڈ کے بارے کتنا جانتا تھا؟ سوائے وہاں کی کرکٹ ٹیم اور کرکٹ کے سٹیڈیمز کے حوالے سے معروف ہو جانے والے شہروں کے ؟ پھر کرائسٹ چرچ نامی شہر میں ایسا طوفان اٹھاکہ پچاس سے زیادہ مسلم ممالک کی نفرت کا نیوزی لینڈ کو سامنا تھا۔وہاں جو کچھ ہوا، وہ کبھی پہلے نہ ہوا تھا،جسے سہناہی نہیں ، سننا بھی آسان نہ تھا۔ ایسا بہیمانہ قتل عام موویز میں بھی ہر شخص نہیں دیکھ سکتا، اعصاب چٹخ جاتے ہیں اور انسانی نالیوں میں خون میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مگر کوئی ہارر مووی نہ تھی ، کوئی سفاک جذبات کی تسکین کا سامان کرتی ویڈیو گیم بھی نہ تھی ۔ یہ ایک شیطان تھا ، جو آسٹریلوی باشندے کے روپ میں نیوزی لینڈ کی مساجد ، النور اور لن وڈ میںاتر آیا تھا۔ عین اس وقت جب لوگ باوضو ہو کے رب کے حضور رکوع و سجود میں تھے ، بندگی کے جذب و کیف میں تھے اور حالتِ راز ونیاز میں تھے ۔ قاتل کی گن کے نعرے ،ترک ٹی وی چینل نے جو سب کے لیے ترجمہ کر دئیے، قاتل کے ذہن ، ماضی اور ارادوں کی ترجمانی کرتے تھے، یہ گوری چمڑی کی برتری کے نشے سے چوراک جانور تھا۔نہیں معلوم کس قصاب خانے میں رکھ کر ، اس کے ذہن میں ماضی کی صلیبی جنگوں کا خمارمشتعل کر دیا گیا تھا۔ اب یہ چلتا پھرتا بارود خانہ تھا، وہ کہ جس کو بوسیدہ افکار کی آگ دکھا دی گئی تھی ۔ا س کے ہیرو وہ تھے جنھوں نے مہاجرین کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔ یہ قاتل اس دن تہتر ممالک سے نیوزی لینڈ آئے ساٹھ ہزارسے زائد مسلمانوں میں سے بعض کو قتل نہ کر رہا تھا، یہ نیوزی لینڈ کے چہرے کو، اس کے ماضی کی فضا ، امن کی ردااور رواداری پر گولیاں برسا رہا تھا۔ مغرب کے بارے میں ہمارا علم ہمیشہ ادھورا رہتا ہے ،محرومی نے بھی ہمارے اندر بدگمانی کے کئی سنپولئے پید ا کر دئیے ہیں۔ یہ نہیں کہ مغرب میں بس انسانیت ہے اور امن کا سفید پرچم لہراتاہے اور چونچ میں شاخِ زیتون لیے فاختائیں اڑا کرتی ہیں ۔ وہاں آسٹریلیا کے روبوٹک قاتل اور سفاک سینیٹر ہیں ، وہاں ٹرمپ ہے اور وہاں عراق و افغانستان سمیت متعدد ممالک کو تاراج کر دینے کے منصوبے بنتے ہیں ۔ نیوزی لینڈ مگر ایسا نہ تھا۔ یہ سب میں کبھی نہ جان سکتا اگر میں نیوزی لینڈ کے اس مردِ درویش سے بات نہ کر چکا ہوتا ،وہ حیدر لون کہ جس کے لہجے میں شہد کی مٹھاس او رہمالیہ کا عزم بولتاہے۔حیدر لون صاحب جو گلگت بلتستان کے سپوت ہیں، اور اب نیوزی لینڈ کے شہری بھی۔وہ وہاں پاکستانی کمیونٹی کے صدر ہیں ، عیسائی مسلم مشترکہ تنظیم کے رکن ہیں ، نیوزی لینڈ پاکستان چیمبر آف کامرس کے ممبر ہیں ، رابطہ عالمِ اسلامی میں جن کے لیے دستر خوان چنا جاتاہے اور جونیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں کشمیر پر قراردادیں پیش کیا کرتے ہیں۔ وہ کہ جنھوں نے نیوزی لینڈ میں اپنیت گھر کا نام پاکستان رکھ چھوڑا ہے ۔حیدر صاحب نے میرے سلگتے دل پر حقائق کا تریاق یوں رکھا ۔قطرہ قطرہ ، کہ دل شانت ہوگیا۔ فورا انھوں نے نیوزی لینڈ ے باشندگان کا رویہ منکشف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دن نیوزی لینڈ میں کہیں ایک پھول بھی میسر نہیں آ سکتا۔کہ سارے پھول وہ ہم پاکستانیوں کی دلجوئی اور تعزیت کے لیے خرید کر پیش کر چکے۔انھوں نے بتایا کہ تعزیتی کالز کا ا س قدر تانتا بندھا کہ یکے بعد دیگرے موبائل کی بیٹریاں جواب دے جاتی ہیں۔ سیکیورٹی کا سامان ابھی نیوزی لینڈ کا رخ نہ کر سکا تھا۔ جیسا کہ اپنے ٹویٹ میں وہاں کی کرکٹ کے لیے بہت جانے والے پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے بھی اپنے ٹویٹ میں بتایا ، وہ ایک بہت پر امن ملک ہے ۔مساجد ہی نہیں ، وہاں سرکار دربار میں بھی کوئی سکیورٹی کا تصور موجودنہ تھا۔ شب دو بجے ہم نکل جاتے ، بیگم ساتھ ہوتیں، سکارف انھوں نے پہنا ہوتا اور ہمیں کچھ خدشہ نہ ہوتا،لوگوں پر یہاں اعتبار کیا جاتا ہے ۔لون صاحب بتا رہے تھے ۔ انھی نرم حالات اور نرم قوانین کا قاتل نے فائدہ اٹھایا، اس کا سرکل بھی بہت محدود رہا تھا، اور یہ کسی اعتبار سے مشکوک بھی نہ تھا، چنانچہ یہ اپنا کھیل کھیل گیا۔ اس ایک واقعہ نے نیوزی لینڈ مگر بدل ڈالا۔ جیسے نائن الیون نے دنیا۔ لون صاحب بتا رہے تھے، آپ نیوزی لینڈ کی مہربان فضا کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہم عید کی نماز پارلیمنٹ میں پڑھا کرتے ہیں۔دراصل نیوزی لینڈ کے لوگ شرافت کی تاریخ اور نجابت کا حوالہ رکھتے ہیں ، اس کے مقابل آسٹریلوی وہ ہیں ،جنھیں بطور سزا اس براعظم میں بھیجا گیا۔نیوزی لینڈ کے متعدد شہر ان نجیب شہریوں کے نام پر ہیں ، جو وائسرائے ہند رہے۔یہ حکمران لوگ ہیں ، اور حکمرانی کے تیور جانتے ہیں۔ ا س کا پہلا عکس نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا کی پہلی ہی تقریر میں مل گیا۔ انھوں نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا اور مساجد یا مسلمانو ں پر نہیں، نیوزی لینڈ پر حملہ۔ اس کے چہرے پر وہی کرب ہلکورے لیتا تھا جو بچے کی اذیت پر کسی ماں کے انگ انگ سے پھوٹتاہے۔ اس نے سر پر دوپٹہ اوڑھا، اس نے شلوار اور قمیص زیبِ تن کیااور یہ مسلمان خواتین کے سینے سے جا لگی۔اس کے ہاتھ ظلم اور درد میں ڈوبے ہوؤں کی پشت سہلانے لگے۔ ایک ہی دن میں اس نے اسلحہ میں نرمی کا قانون بدل ڈالا۔اس نے ان تمام لوگوں کو سامنے لا کھڑا کیا،جو اپنے لفظ اور لہجے سے ، اپنی حیثیت اور ساکھ سے مسلمانوں کے لیے باعث ِ اطمینان ہو سکتے تھے۔ چنانچہ آج عالم یہ ہے کہ بجائے ان واقعات کے دہرائے جانے کے ، مغرب میں ایسے سانحات کے بعد جو تارکین ِ وطن مسلمانوں کا مقدر بن جاتے ہیںاور جہاں مسلمان ہی نہیں، سکھ بھی اپنی داڑھیوں کی پاداش میں دھر لیے جاتے ہیں، اس سب کے بجائے آج نیوزی لینڈ میں سینے فراخ ہیں اور ہاتھوں میں پھول ۔جی ہاں طوفان آیا کرتے ہیں ، وقت آتاہے کہ معاشرے آگ میں جا گرتے ہیں ، یہ مگر قیادت ہوتی ہے جو قوم کو سرخرو کر دیتی ہے، خان صاحب کے دل میں نیوزی لینڈ کے مقتولین کا درد جاگا، کوئی ڈاکٹر جا کے تشخیص کرے، کہیں خان صاحب کی قریب کی نظر کمزور تو نہیں، ورنہ ساہیوال نیوزی لینڈ سے دور تو نہیں۔
نیوزی لینڈ آگ سے امن تک
پیر 18 مارچ 2019ء
بحران میں قیادت کس طور بروئے کار آتی ہے ، یہ ہمیں نیوزی لینڈ نے بتایا، طوفانوں سے قومیں کس طور نبرد آزما ہوکے اور نکھر کے ظہو رکرتی ہیں ، یہ بھی نیوزی لینڈرز نے آشکار کر دکھایا،دراصل نیوزی لینڈ آگ میں آگرا تھا، قیادت او رقوم نے مل کرمگر اس آگ کو گلزار میں بدل ڈالا۔ جناب عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے مغرب کی مثالیں دیں اور ہمارے طرزِ حکومت کے خلاف تنقید کی ایک دیوار کھڑی کر دی۔ وقت میسر اور مہلت ان کے پاس موجود ہے ، انتخاب او رعمل کا فیصلہ مگر انھوں نے خود کرنا ہے ۔ وہ ابھی تک مگر محض بات کرتے ہیں ، جبکہ زندگی صرف عمل کی زبان جانتی ہے ۔ کاش زندگی اتنی سہل ہوتی کہ یہ سوشل میڈیا پر کی گئی باتوں اور بیانات سے نکھر سکتی ، یہ مگر لہو مانگتی ہے ، عمل اور ریاضت کا لہو۔ وہ لہو جو نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈرا نے کرائسٹ چرچ نامی شہر کی مساجد میں لگی آگ پر ڈال کے نیوزی لینڈ کا وقار اور اعتبار بچا لیا۔ آپ سوچئے، اک عام پاکستانی نیوزی لینڈ کے بارے کتنا جانتا تھا؟ سوائے وہاں کی کرکٹ ٹیم اور کرکٹ کے سٹیڈیمز کے حوالے سے معروف ہو جانے والے شہروں کے ؟ پھر کرائسٹ چرچ نامی شہر میں ایسا طوفان اٹھاکہ پچاس سے زیادہ مسلم ممالک کی نفرت کا نیوزی لینڈ کو سامنا تھا۔وہاں جو کچھ ہوا، وہ کبھی پہلے نہ ہوا تھا،جسے سہناہی نہیں ، سننا بھی آسان نہ تھا۔ ایسا بہیمانہ قتل عام موویز میں بھی ہر شخص نہیں دیکھ سکتا، اعصاب چٹخ جاتے ہیں اور انسانی نالیوں میں خون میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مگر کوئی ہارر مووی نہ تھی ، کوئی سفاک جذبات کی تسکین کا سامان کرتی ویڈیو گیم بھی نہ تھی ۔ یہ ایک شیطان تھا ، جو آسٹریلوی باشندے کے روپ میں نیوزی لینڈ کی مساجد ، النور اور لن وڈ میںاتر آیا تھا۔ عین اس وقت جب لوگ باوضو ہو کے رب کے حضور رکوع و سجود میں تھے ، بندگی کے جذب و کیف میں تھے اور حالتِ راز ونیاز میں تھے ۔ قاتل کی گن کے نعرے ،ترک ٹی وی چینل نے جو سب کے لیے ترجمہ کر دئیے، قاتل کے ذہن ، ماضی اور ارادوں کی ترجمانی کرتے تھے، یہ گوری چمڑی کی برتری کے نشے سے چوراک جانور تھا۔نہیں معلوم کس قصاب خانے میں رکھ کر ، اس کے ذہن میں ماضی کی صلیبی جنگوں کا خمارمشتعل کر دیا گیا تھا۔ اب یہ چلتا پھرتا بارود خانہ تھا، وہ کہ جس کو بوسیدہ افکار کی آگ دکھا دی گئی تھی ۔ا س کے ہیرو وہ تھے جنھوں نے مہاجرین کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔ یہ قاتل اس دن تہتر ممالک سے نیوزی لینڈ آئے ساٹھ ہزارسے زائد مسلمانوں میں سے بعض کو قتل نہ کر رہا تھا، یہ نیوزی لینڈ کے چہرے کو، اس کے ماضی کی فضا ، امن کی ردااور رواداری پر گولیاں برسا رہا تھا۔ مغرب کے بارے میں ہمارا علم ہمیشہ ادھورا رہتا ہے ،محرومی نے بھی ہمارے اندر بدگمانی کے کئی سنپولئے پید ا کر دئیے ہیں۔ یہ نہیں کہ مغرب میں بس انسانیت ہے اور امن کا سفید پرچم لہراتاہے اور چونچ میں شاخِ زیتون لیے فاختائیں اڑا کرتی ہیں ۔ وہاں آسٹریلیا کے روبوٹک قاتل اور سفاک سینیٹر ہیں ، وہاں ٹرمپ ہے اور وہاں عراق و افغانستان سمیت متعدد ممالک کو تاراج کر دینے کے منصوبے بنتے ہیں ۔ نیوزی لینڈ مگر ایسا نہ تھا۔ یہ سب میں کبھی نہ جان سکتا اگر میں نیوزی لینڈ کے اس مردِ درویش سے بات نہ کر چکا ہوتا ،وہ حیدر لون کہ جس کے لہجے میں شہد کی مٹھاس او رہمالیہ کا عزم بولتاہے۔حیدر لون صاحب جو گلگت بلتستان کے سپوت ہیں، اور اب نیوزی لینڈ کے شہری بھی۔وہ وہاں پاکستانی کمیونٹی کے صدر ہیں ، عیسائی مسلم مشترکہ تنظیم کے رکن ہیں ، نیوزی لینڈ پاکستان چیمبر آف کامرس کے ممبر ہیں ، رابطہ عالمِ اسلامی میں جن کے لیے دستر خوان چنا جاتاہے اور جونیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں کشمیر پر قراردادیں پیش کیا کرتے ہیں۔ وہ کہ جنھوں نے نیوزی لینڈ میں اپنیت گھر کا نام پاکستان رکھ چھوڑا ہے ۔حیدر صاحب نے میرے سلگتے دل پر حقائق کا تریاق یوں رکھا ۔قطرہ قطرہ ، کہ دل شانت ہوگیا۔ فورا انھوں نے نیوزی لینڈ ے باشندگان کا رویہ منکشف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دن نیوزی لینڈ میں کہیں ایک پھول بھی میسر نہیں آ سکتا۔کہ سارے پھول وہ ہم پاکستانیوں کی دلجوئی اور تعزیت کے لیے خرید کر پیش کر چکے۔انھوں نے بتایا کہ تعزیتی کالز کا ا س قدر تانتا بندھا کہ یکے بعد دیگرے موبائل کی بیٹریاں جواب دے جاتی ہیں۔ سیکیورٹی کا سامان ابھی نیوزی لینڈ کا رخ نہ کر سکا تھا۔ جیسا کہ اپنے ٹویٹ میں وہاں کی کرکٹ کے لیے بہت جانے والے پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے بھی اپنے ٹویٹ میں بتایا ، وہ ایک بہت پر امن ملک ہے ۔مساجد ہی نہیں ، وہاں سرکار دربار میں بھی کوئی سکیورٹی کا تصور موجودنہ تھا۔ شب دو بجے ہم نکل جاتے ، بیگم ساتھ ہوتیں، سکارف انھوں نے پہنا ہوتا اور ہمیں کچھ خدشہ نہ ہوتا،لوگوں پر یہاں اعتبار کیا جاتا ہے ۔لون صاحب بتا رہے تھے ۔ انھی نرم حالات اور نرم قوانین کا قاتل نے فائدہ اٹھایا، اس کا سرکل بھی بہت محدود رہا تھا، اور یہ کسی اعتبار سے مشکوک بھی نہ تھا، چنانچہ یہ اپنا کھیل کھیل گیا۔ اس ایک واقعہ نے نیوزی لینڈ مگر بدل ڈالا۔ جیسے نائن الیون نے دنیا۔ لون صاحب بتا رہے تھے، آپ نیوزی لینڈ کی مہربان فضا کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہم عید کی نماز پارلیمنٹ میں پڑھا کرتے ہیں۔دراصل نیوزی لینڈ کے لوگ شرافت کی تاریخ اور نجابت کا حوالہ رکھتے ہیں ، اس کے مقابل آسٹریلوی وہ ہیں ،جنھیں بطور سزا اس براعظم میں بھیجا گیا۔نیوزی لینڈ کے متعدد شہر ان نجیب شہریوں کے نام پر ہیں ، جو وائسرائے ہند رہے۔یہ حکمران لوگ ہیں ، اور حکمرانی کے تیور جانتے ہیں۔ ا س کا پہلا عکس نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا کی پہلی ہی تقریر میں مل گیا۔ انھوں نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا اور مساجد یا مسلمانو ں پر نہیں، نیوزی لینڈ پر حملہ۔ اس کے چہرے پر وہی کرب ہلکورے لیتا تھا جو بچے کی اذیت پر کسی ماں کے انگ انگ سے پھوٹتاہے۔ اس نے سر پر دوپٹہ اوڑھا، اس نے شلوار اور قمیص زیبِ تن کیااور یہ مسلمان خواتین کے سینے سے جا لگی۔اس کے ہاتھ ظلم اور درد میں ڈوبے ہوؤں کی پشت سہلانے لگے۔ ایک ہی دن میں اس نے اسلحہ میں نرمی کا قانون بدل ڈالا۔اس نے ان تمام لوگوں کو سامنے لا کھڑا کیا،جو اپنے لفظ اور لہجے سے ، اپنی حیثیت اور ساکھ سے مسلمانوں کے لیے باعث ِ اطمینان ہو سکتے تھے۔ چنانچہ آج عالم یہ ہے کہ بجائے ان واقعات کے دہرائے جانے کے ، مغرب میں ایسے سانحات کے بعد جو تارکین ِ وطن مسلمانوں کا مقدر بن جاتے ہیںاور جہاں مسلمان ہی نہیں، سکھ بھی اپنی داڑھیوں کی پاداش میں دھر لیے جاتے ہیں، اس سب کے بجائے آج نیوزی لینڈ میں سینے فراخ ہیں اور ہاتھوں میں پھول ۔جی ہاں طوفان آیا کرتے ہیں ، وقت آتاہے کہ معاشرے آگ میں جا گرتے ہیں ، یہ مگر قیادت ہوتی ہے جو قوم کو سرخرو کر دیتی ہے، خان صاحب کے دل میں نیوزی لینڈ کے مقتولین کا درد جاگا، کوئی ڈاکٹر جا کے تشخیص کرے، کہیں خان صاحب کی قریب کی نظر کمزور تو نہیں، ورنہ ساہیوال نیوزی لینڈ سے دور تو نہیں۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں پیر 18 مارچ 2019ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں