آپ حیران نہ ہوں، مَیں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ شاعرِ مشرق کے ’’ایک ہوں مسلم‘‘ والے مطالبے کا تعلق سو سال پہلے والے مسلمانوں سے تھا، جو ظاہر ہے اپنی ہٹ دھرمی، جہالت، سستی جذباتیت، شدید قسم کی فرقہ پرستی، دین فروشی اور قدم قدم پر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے شوق میں تو تیزی سے ’ایک‘ ہوتے چلے گئے لیکن حضرتِ اقبال کے اس مطالبے کو آج تک ہم نے دل سے مانا نہیں ۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان یا کم از کم پاک و ہند کے پچاس کروڑ اہلِ ایمان پلک جھپکنے میں یک جان دو قالب کا درجہ اختیار کر جائیں، لیکن اس بات کا جائزہ لینا تو بہر حال اشد ضروری ہے کہ جسے ہم دین کا نام دیتے ہیں وہ قرآن اور سُنت پہ عمل کرنے کو کہتے ہیں یا اپنی اپنی انوکھی خواہشات، پختہ عادات اور کریہہ رسومات کے سامنے سر بہ سجود ہونے کا نام دین ہے!!! جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حالات مخدوش سے مخدوش تر ہوتے چلے گئے، رفتہ رفتہ ہم نے اپنا تعارف ہی مسلم کی بجائے شیعہ، سُنی، وہابی، بریلوی، دیوبندی کے حوالے سے کرانا شروع کر دیا۔ ہم وہ سہل پسند قوم ہیں، جنھوں نے ہندوؤں سے نہ علم کا جذبہ سیکھا، نہ اُن کے آئی ٹی میں حاصل کیے عروج سے کچھ متاثر ہوئے، نہ ان کی ریاضی دانی، بزنس اور ٹیکنالوجی سے ہماری آنکھیں چندھیائیں، نہ جاگیر داری جیسے مکروہ ناسور کے خاتمے سے کچھ سبق لیا، حتّیٰ کہ ان کا اپنی دھرتی سے ٹوٹ کے محبت کرنا بھی نظر انداز کر دیا۔ اگر کچھ سیکھا تو شادی بیاہ کی گندی مندی رسمیں سیکھیں، دھیج اور برات میں لڑکے کی بھاری قیمت وصول کرنا سیکھا، عورت جیسی مقدس ہستی کو پاؤں کی جوتی بنانے اور خاوند کے ساتھ ستی ہو جانے کا حربہ سیکھا، جائیداد میں اس کے حق پہ ڈاکہ مارنا سیکھا۔ طبقہ بندی سیکھی، نچلے طبقوں سے نفرت کرنا سیکھا، ذات پات سیکھی، اقبال نے ایسی ہی صورتِ حال دیکھ کے ہمیں غیرت دلائی تھی کہ: فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟ سچ پوچھیں حکیم الامت کو برِ صغیر کے مسلمانوں کے برائے نا م اسلام سے بھی سو طرح کے تحفظات تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ہٹ دھرم لوگ ہزار طرح کی نصیحتیں، حدیثیں اور آیتیں سننے کے بعد بھی اپنی ذات پات، مفادات اور قیاسات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ: یوں تو سیّد بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟ اور یہ کہ: زباں سے کہہ بھی دیا لا اِلہ تو کیا حاصل ؟ دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں ! ہمیں اپنے دین کے مبلغین سے یہی شکوہ ہے کہ انھوں نے آج تک منہ زبانی بھاشن سے واسطہ رکھا ۔ ہم بچپن سے پڑھتے آئے تھے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، لیکن کسی عالمِ دین نے ضابطہ حیات کے معانی سمجھانے کی زحمت نہیں کی۔ وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ اتنے نوافل پڑھنے سے جنت میں اتنے محلات کے مالک بن جاؤ گے، اور ایک حج یا عمرہ کرنے سے گناہوں سے پاک ہو جاؤ گے ، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ حرام بلکہ مشکوک پیسے سے حج عمرہ ہوتا ہی نہیں۔وہ یہ ہدایت نہیں کرتا کہ ملاوٹ کرنے والا، چاہے جتنے بھی نوافل پڑھ لے یا حج عمرے کر لے، وہ تو دین سے ویسے ہی فارغ ہے۔ آج مسجد میں با جماعت نماز اور جمعہ کے اجتماعات پہ پابندی ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس نعمت کے چھن جانے کا افسوس تو کیا لوگوں کو اپنے اپنے سابقہ طرزِ عمل پہ غور کرنے اور ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ ہم نے چالیس سال کے زائد عرصے سے مختلف طبقہ ہائے فکر کی مساجد میں نماز و جمعہ ادا کرنے اور مختلف قسم کے دینی اجتماعات اور جلسے جلوسوںمیں شرکت کر دیکھی ہے، مجال ہے مقررین کہیں فروعی مسائل اور فرقوں کی توصیف و مذمت سے باہر نکلے ہوں۔ وہاں تو قرآن و احادیث کے حوالے بھی اپنی اپنی ہٹی چمکانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔اگر کہیں فرقہ بازی سے بالا بالا دین کی بات ہو بھی گئی تو اس کے عملی زندگی میں اطلاق کے معاملے کو ہمیشہ گول کر دیا گیا۔ آج دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں کھانے پینے والی اشیا میں ملاوٹ کی سزا موت ہے لیکن باقی چیزیں تو رہیں ایک طرف ، دودھ اور شہد جن کی برکات کا قرآن جیسی مقدس کتاب میں تذکرہ ہے، جو جنت کی معروف اور مرغوب ترین نعمتیں ہیں، ہم (مَن غَشَّ فلیسَ مِنّا ) والے، ان میں ملاوٹ کر کے کس کو دھوکا دے رہے ہیں؟ آج جب ایک معمولی سے وائرس کے سامنے دنیا بھر کی ترقی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور ہر قوم اپنی ترجیحات نئے سرے سے ترتیب دینے پہ غور کر رہی ہے ۔ دنیا بھر میں اسلام کی روح بھی بیدار ہو رہی ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی اور مالی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے اندر دینِ اسلام کی سچی روح بیدار کرکے دنیا بھر کو ایک مثبت پیغام دیں۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں پورے دینِ اسلام کی روح خطبۂ حجۃ الوداع کے ان دو جملوں میں پوشیدہ ہے کہ: ٭ مَیں تمھارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں: قرآن اور میری سُنت۔ ٭ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر فوقیت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ ہم آج بھی اگر متحد ہو کر خلوصِ دل سے اسلام کی اصل روح(قرآن و سُنّت) کے مطابق اپنا قبلہ سیدھا کر کے خالص دین کے مطابق نئی زندگی کا آغاز کر دیں تو دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت کے سنور جانے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے، لیکن یاد رکھیں کہ اب یہ کام تھوڑا مشکل ہو گیا ہے۔ اب پوری دنیا کے سامنے ہمارا جو امیج جا چکا ہے، اسے زائل کرنے کے لیے ہمیں ایک سے پہلے نیک ہونا پڑے گا۔ اس عمل سے اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شاید شاعرِ مشرق کی روح بھی سرشار ہو جائے، جو یہ حسرت دل ہی میں لیے دنیا سے سدھار گئے کہ: منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک