نہیں! یہ اہل ایمان کا شیوہ نہیں! فتح کے بعد مسلمان کا طرزِ عمل وہ نہیں ہوتا جس کا مظاہرہ ہم اہل پاکستان کر رہے ہیں! بھارت کو اپنی کثرت پر‘ اپنے حجم پر‘ اپنی افواج کی طاقت پر بھروسہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پاکستان ترنوالہ ثابت ہو گا۔ مودی سمجھ رہا تھا کہ گجرات کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی آسانی سے اس کی بربریت کا شکار ہو جائیں گے۔ مگر پروردگار عالم نے ہمیشہ کی طرح اہل ایمان کو نوازا۔ قلیل‘ کثیر سے جیت گئے۔ طاقت ایمان سے شکست کھا گئی۔ بھارت کے دو طیارے مار گرائے گئے۔ یہ ایسی ہزیمت تھی جسے بھارت اپنے لوگوں سے نہ اہل دنیا سے چھپا سکا۔ اللہ نے پاکستان کو فتح سے نوازا۔ بھارتیوں کا غرور خاک میں مل گیا ان کا مورال تحت الثدیٰ تک گر گیا۔ یہ شکر کا مقام تھا۔ کیا تم نے اللہ کا شکر ادا کیا؟ شادیانے بجا! جلوس بھی نکالے گئے۔ نعرہ زن بھی ہوئے مگر شکرانے کے نوافل ادا کئے نہ صدقہ و خیرات کی طرف دھیان گیا۔ سوشل میڈیا پر فخر اور تکبر کی گھٹا اٹھی اور ایک افق سے دوسرے تک چھا گئی! پھر ہم دشمن کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں۔ یہ تو تکبر کی ایک قسم ہے۔ یہ دشمن کو حقیر گرداننے والی بات ہے۔ سکواڈرن لیڈر ابھی نندن ہے یا مودی! ہم ان کی تضحیک کر رہے ہیں! اگر بھارتی یہ کہیں کہ عمران خان ولایت کا پڑھا ہوا ہے اور مودی چائے بیچنے والا‘ تو اور بات ہے۔ ہم اس سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتے ہیں مگر ہم خود غرور کے راستے پر چل پڑیں۔تو یہ رویہ اللہ کو پسند نہیں! یہ خدائے رحیم و کریم ہے جس نے پاکستان کی عزت رکھی! سرخروئی بخشی! دشمن کا سر غرور نیچا ہوا۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم عاجزی اختیار کریں‘ اللہ کا شکر ادا کریں جس نے ہمارے پائوں زمین پر مضبوطی سے جما دیے۔ جس نے ہمارے شاہینوں کو خود اعتمادی دی اور وہ فضائوں پر حکمرانی کرنے لگے ع نہد شاخ پُرمیوہ سربر زمیں شاخ پھل سے لدی ہو تو جھکتی ہے‘ اکڑتی نہیں! اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو! تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے نہ تم پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو! یہ سارے برے کام تمہارے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ ہم کیا! ہمارا ایمان کیا! ہمارے اعمال کیا! میاں محمد بخش صاحب نے فرمایا تھا ؎ جے میں ویکھاں عملاں ولے‘ کچھ نئیں میرے پلے جے میں ویکھا رحمت رب دی بلے بلے بلے کیا اس انعام کے ہم مستحق تھے؟ شاید تھے اس لیے کہ بہر طور اہل ایمان ہیں۔ آغا حشر کاشمیری کے بقول ؎ خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں حق پرستوں کی اگر کی تونے دلجوئی نہیں طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں خدا نے ہماری دلجوئی کی! بت پرستوں کو موقع نہ ملا کہ طعنہ دیتے مگر اب وقت ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہماری اور بھارتیوں کی زندگی میں کیا فرق ہے! درست ہے کہ ہم دیکھنے میں مختلف لگتے ہیں! ہم بنیے کی دھوتی پہنتے ہیں نہ لنگوٹی میں چلتے پھرتے ہیں‘ ہم گوشت کھاتے ہیں۔ وہ گنگا جل میں اشنان کرتے ہیں۔ ہم خدا پرست ہیں! توحید کے علم بردار ہیں۔ مسجدوں میں جاتے ہیں سجدہ ریز ہوتے ہیں! کعبہ کا طواف کرتے ہیں! روزہ دار ہیں! ہمارے نام ہندوئوں سے مختلف ہیں! ہمارا پرچم ہمارا پاسپورٹ سبز ہے۔ مگر یہاں پہنچ کر فرق ختم ہو جاتا ہے! صبح سے شام تک جو زندگی ہم گزارتے ہیں۔ وہ ہمارا طرہّ امتیاز نہیں! ہندو جھوٹ بولتا ہے۔ ہم بھی جھوٹ بولتے ہیں! اگر یہ کہا جائے کہ ہم اس سے زیادہ نہیں تو کم جھوٹ بھی نہیں بولتے تو اسے کون چیلنج کرے گا؟ ہندو وعدہ خلاف ہے تو اس میں ہم بھی اس کے ہم پلہ ہیں۔ مگر ہمارا معاملہ تو بدتر ہے! بڑی بوڑھیاں ہماری نسل کے لوگوں کو بتایا کرتی تھیں کہ ہندو دکاندار کے پاس چھوٹا بچہ بھی بھیج دیتے تھے تو وہ اسی ریٹ پر شے فروخت کرتا تھا جو اصل ریٹ تھا! مسلمان دکاندار کے پاس بچہ جاتا تھا تو وہ نرخ بڑھا دیتا تھا۔ کیا ہم فخر سے بھارت کو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا تاجر اللہ سے ڈرتا ہے۔ ملاوٹ نہیں کرتا؟ افسوس! صد افسوس! یہ دعویٰ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ملاوٹ میں ناجائز نفع خوری میں‘ ذخیرہ اندوزی میں‘ مال بیچتے وقت نقصان نہ بتانے میں۔ کم تولنے میں‘ تھوڑا مانپنے میں‘ ہم مسلمان لگتے ہی نہیں! ہمارا طرز عمل مسلمانوں والا نہیں! اس معاملے میں ہندو ہم سے آگے بڑھ گیا اس نے کچھ بت مندر سے نکالے اور دکان میں رکھ لیے۔ صبح دکان کھولتا ہے تو سب سے پہلے کونے میں پڑے ہوئے ان بے جان‘ انسانی ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو سجدہ کرتا ہے! دوسری طرف ہم اپنے اسلام کو دکان میں آنے دیتے ہیں نہ دفتر میں نہ کارخانے میں! ہم صبح کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلنے لگتے ہیں۔ اسلام ہمارے ساتھ مسجد سے باہر آنا چاہتا ہے ہم اسے منع کرتے ہیں۔ ہم اسے کہتے ہیں بھائی آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں؟ ہم ہیں نا! آپ یہیں مسجد ہی میں آرام فرمائیے! ظہر کے وقت ملاقات ہو گی! اسلام کو مسجد کے اندر مقید کر کے ہم بازار منڈی تھانے کچہری دفتر کارخانے پہنچتے ہیں۔ ظہر تک جو کچھ کرتے ہیں اس میں سے بیشتر اسلام کی موجودگی میں نہیں کیا جا سکتا! ہر دروغ گوئی‘ ہر عہد شکنی‘ ہر خیانت‘ ہر جرم‘ ہمارے ہاتھوں سے‘ زبانوں سے‘ پائوں سے‘ دماغ سے‘ منہ سے‘ سرزد ہوتا ہے! پھر ہم ظہر کے وقت مسجد میں اسلام سے گلے ملتے ہیں۔ رات ہے یا دن‘ شام ہے یا دوپہر یا دن کی کوئی گھڑی یا رات کا کوئی حصہ‘ اسلام مسجد ہی میں رہتا ہے وہ ان الماریوں ہی میں رہتا ہے جن میں قرآن پاک کے نسخے رکھے ہیں۔ وہیں منبر کے قریب‘ وہیں محراب کے پاس! اللہ سے ڈرو! اے اہل پاکستان! تمہارا ظاہر متشرع ہے‘ باطن پر بھی توجہ دو! تمہاری مسجدیں اسلام سے شرف یافتہ ہیں‘ اپنے بازاروں دفتروں اسمبلیوں کارخانوں میں بھی اسلام کو آنے دو! اعزہ و اقربا سے صلہ رحمی کرو! ماں باپ کو رنجیدہ خاطر نہ کرو! خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرو! حج کرنے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے! یہ تو صرف متاثرہ انسان خود ہی معاف کر سکے گا! جو زمین و آسمان کو ایک ہاتھ میں لپیٹ سکتا ہے‘ اس نے تمہیں ایسی بیّن فتح سے نوازا ہے کہ پوری دنیا اس کا اعتراف کر رہی ہے! عاجزی اختیار کرو! بارگاہ ایزدی میں سروں کو خم کرو! اور دعا کرتے رہو کہ یہ توفیق ارزانی آئندہ بھی ہو!