سوشل میڈیا ازحد فعال ہے ، نئے اسلامی سال کی شروعات کے ساتھ ہی ، سالِ نو کی مبارک بادوںکے سلسلے بھی شروع ہوجاتے ہیں، حالانکہ ہمارا نیا سال تو شروع ہی شہادتوں کے عظیم سفر اور روزِ روشن تذکرے سے ہوتا ہے، اور پھر اس کے بعد یکم سے لے کر دس محرم الحرام۔۔۔ بالخصوص’’یوم عاشور‘‘شہادتوں کے وہ چراغ فیروزاں ہوئے ، جس کی مثال تاریخِ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ذی الحجہ 23ھ ، خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓحج کے امور سے فراغت پاکر ، مدینہ منورہ واپس تشریف لائے۔ دنیا کی عظیم ترین سلطنت کا حکمران، جس کے بارے میں اوریئنٹلسٹ کہتے ہیں کہ اگر اسلام کے دامن میں عمر جیسی ہستی نہ ہو تی تو اسلام اس قدر تیزی سے نہ پھیلتا ، اور اگر ایک عمر اور ہوتا تو روئے زمین پر اسلام کے علاوہ ، کوئی اور مذہب نہ ہوتا، آپ اکثر یہ دُعا کرتے : ’’اللھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک ، واجعل موتیٰ فی بلد حبیبک ‘‘ اے اللہ مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما، اور میری موت آئے تو تیرے حبیب کے کوچے میں ۔ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے کہ اباجان، اسلامی افواج ایران سے آگے پہنچ گئیں ، قادسیہ اور یرموک کی سرحدوں کو عبور کر گئی، اسلامی سپاہ دنیا کے دور دراز علاقوں میں خیمہ زن ہیں، آپ ؓموت اوروہ بھی شہادت کی موت کو مدینہ میں تلاش کر رہے ہیں، آپؓمسکرا کر جواب دیتے، کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کے ہاں کوئی بھی معاملہ مشکل کیسے۔۔۔؟ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ذی الحجہ 23ھ کے آخری تین یا چار ایام باقی تھے، خلیفہ دوم، مرادِ رسول، امیر المؤمنین،حضرت عمرفاروقؓ،مسجد نبوی میں فجر کی نماز پڑھانے کے لیے نبی اکرمﷺ کے مصلیٰ پر براجمان تھے ۔ حالتِ نماز میں ابولؤلو فیروز نامی مجوسی بدبخت نے زہر آلود خنجر سے حملہ کیا ، جس کے نتیجے میں آپؓ، یکم محرم الحرام 24ھ کو خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ امریکہ کے ڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ کی معروف کتاب "The 100"، جو کہ پہلی مرتبہ 1978ء میں شائع ہوئی۔ اور پھر دنیا بھر میں اس کتاب کا بہت زیادہ شہرہ رہا ، خاص طور پر مسیحی اور صیہونی قدامت پرستوں کی طرف سے اس کی بہت مخالفت ہوئی، جس کا سبب یہ تھا کہ اس نے معلوم انسانی تاریخ کی ایسی سو شخصیات کی فہرست مرتب کی،جنہوں نے انسانی تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ دیا، ان مؤثر ترین شخصیات میں اس نے سرِ فہرست نبی اکرمﷺکا اسم مبارک رکھا، اگرچہ ابتدائی طور پر اس کتاب اور اس کے مصنف کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم مائیکل ایچ ہارٹ کے دلائل،جن کی بنیاد پر ان سو افراد کا انتخاب ہوا، اور پھر ان کی تاریخی اہمیت کے اعتبار سے درجہ بندی ہوئی، اتنے ٹھوس اور مضبوط تھے،کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت اور وقعت میں اضافہ ہوتا گیا، کتاب کے مصنف نے،کتاب میںموجود شخصیات میںخلیفہ دوم حضرت عمر ؓبن الخطاب (644۔586ئ) کو بھی شامل کیا ہے۔ مصنف کے مطابق : ’’حضرت عمرؓ بن الخطاب دوسرے اور غالباً عظیم ترین خلیفہ تھے،وہ پیغمبر ﷺکے نوجوان ساتھی، مکہ ہی میں پیدا ہونے والی شخصیت ، قیاس ہے کہ آپ 586ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ مائیکل ہارٹ مزید لکھتا ہے کہ عمرفاروقؓ کی کامیابیاں نہایت مؤثر تھیں، ان کی سریع الرفتار فتوحات کے بغیر شاید ، آج اسلام کا پھیلاؤ اس قدر ممکن نہ ہوتا ، ان کے دور میں فتح ہونے والے زیادہ تر علاقے، عرب تمدن میں ڈھل گئے۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ کی تمام کامیابیوں اور فتوحات کے اصل محرک حضرت محمدﷺ ہی تھے، لیکن ان میں خلیفۂ دوم کی لیڈرشپ اور عبقریت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ کہتا ہے کہ مغرب میں حضرت عمرؓکی شخصیت جس طرح متعارف اور معروف ہونی چاہیے تھی، ویسے نہ ہوسکی۔ ان کی فتوحات مغرب کے معروف فاتحین چارلی میگنی اور جولیس سیزر جیسی مشہور شخصیات سے زیادہ بلنددرجہ کی حامل ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ وہ تمام فتوحات جو عمرفاروقؓکے دورِ خلافت میں وقوع پذیر ہوئیں، اپنے حجم اور پائیداری میں ان فتوحات کی نسبت کہیں اہم اور مؤثر تھیں، جو سیزر اور چارلی میگنی کی زیرقیادت ہوئیں۔ آج جو اسلامی تقویم یعنی 1442ھ شروع ہوا چاہتا ہے، تو اس کی ترتیب و تشکیل کا آغازاور کریڈٹ بھی خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓکو ہے ، ہمارے ہاں عام زندگی میں عملی طور پر چونکہ عیسوی تقویم رائج ہے، لہٰذا بالعموم عوام الناس کو نہ تو اس کی اہمیت کا ادراک ہے اور نہ ہی اس کے تاریخی پس منظر سے آگاہی۔۔۔ اور عام روزمرہ زندگی میں، ہم ہجری تاریخوں، مہینوں اور سالوں سے بھی زیادہ باخبر نہیں ہوتے، اس ہجری کیلنڈر کا آغاز 17ھ میں ، آپ ہی کے عہد خلافت میں اس وقت ہوا ، جب حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ یمن کے گورنر تھے، ان کے پاس حضرت عمرؓکے فرامین آتے تھے، جن پر تاریخ درج نہیں ہوتی تھی۔ 17ھ میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓکے توجہ دلانے پر، حضرت عمر فاروقؓنے شوریٰ کو طلب کیا اور صحابہؓ سے مشاورت فرمائی، مختلف آراء سامنے آئیں، بالآخر ’’سنِ تاریخ‘‘کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنائے جانے پر اتفاق ہوا، سال کی ابتداء محرم الحرام سے کیے جانے کا پس منظر یہ ہے کہ 13نبوی ، ماہِ ذی الحجہ کے وسط میں بیعتِ عقبہ اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کر لیا گیا تھا، بایں وجہ اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا ، وہ محرم کا تھا، اسی سے اسلامی سال کا آغاز ہونا قرار پایا۔ مذاہبِ عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں، وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کی یاد دلاتے ہیں ، یا وہ کسی قومی واقعہ کے ، جس سے بظاہر نوعِ انسانی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، مسیحی تقویم کی بنیاد حضرت عیسیٰؑ کے یومِ ولادت سے ہے، یہودی سن ، فلسطین پر حضرت سلیمانؑ کی تخت نشینی کے ایک پُرشکوہ واقع کی یادگار ہے، بکرمی سن راجہ بکرماجیت کی پیدائش ، رومی کیلنڈر سکندر اعظم کی ولادت، جبکہ سنِ ہجری عہدِ نبوی کے ایسے واقعے سے وابستہ ہے، جس میں یہ سبق مضمرہے ، کہ مسلمان اگر اللہ پہ توکل کر کے ، دین کی سربلندی کے لیے اللہ کا راستہ اپناتا ہے تو اسے دین و دنیا کی رفعتیں اور سربلندیاں میسر آتی ہیں۔ یہ واقعہ صبر واستقلال ، ثابت قدمی اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ایک زبردست مثال اور مصائب و آلام سے نکل کر کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہونے کا عمدہ سبق ہے ۔ موجودہ قمری مہینوں کا نام دورِ جاہلیت ہی سے مستعمل ہیں، سوائے ’’محرم الحرام ‘‘کے، ابتدائی طور پر اس کا نام ’’صفرِ اول‘‘تھا، جسے تبدیل کر کے ’’محرم‘‘رکھا گیا ، جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عرب بھی اس میں لڑائی جھگڑے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ٭٭٭٭٭