سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد ہونے اور برادر خورد میاں شہباز شریف کے عملی طور پر’’ عبوری جلاوطنی‘‘ میں جانے کے بعد سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)کے لیے بڑا سیاسی بحران کھڑا ہو گیا ہے۔اگرچہ شاہد خاقان عباسی صاحب کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر 10 روز میں وطن واپس لوٹ آئیں گے لیکن اس کی بہت کم امید ہے اور فی الحال ڈیل اور ڈھیل کی تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں۔ادھر وزیراعظم عمران خان نے پھر واضح کر دیا ہے کہ کسی کو این آراو دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، شریف برادران کی ابتدائی حکمت عملی جس میں نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد صاحبزادی مریم نواز کی معیت میں سخت موقف اختیار کر رہے تھے جبکہ شہباز شریف مقتدر اداروں کے بارے میں نرم پالیسی پر عمل پیرا تھے، ناکام ہو چکی ہے۔ اگر اب بھی ان قیاس آرائیوں میں کوئی جان ہے کہ شہباز شریف کو مسلم لیگ(ن)میں آگے لایا جا ئے گاوہ بھی دم توڑ دیں گی۔ ویسے تو میاں نواز شریف عام انتخابات کے بعدسے ہی اپنے سخت تر ین موقف کا اظہار نہیں کر رہے تھے اور اب تک مکمل خاموشی طاری تھی۔ پہلے تو وہ کہتے رہے کہ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے انتقال کے باعث صدمے میں ہیں لیکن جب خاموشی طویل ہوتی گئی تو موقف اختیار کیا کہ میں پہلے اپنی بری طرح گرتی ہوئی صحت اور قانونی معاملات سے نبٹ لوں پھربات کروں گا۔ سپریم کورٹ نے جب ان کو خرابی صحت کی بنا پر چھ ہفتے کی ضمانت پر رہائی دی تو وہ اس دوران کسی پارٹی رہنما یا سیاسی لیڈر شپ سے نہیں ملے صرف مولانا فضل الرحمن کو جو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میںملین مارچ کے لیے کوشاں ہیں ،ملاقات کا وقت دیا لیکن میاں صاحب نے انھیں بھی ’ہاں‘ نہیں کی بلکہ وہ سخت برہم تھے کہ مولانا فضل الرحمن نے باہر جا کر ملاقات کے حوالے سے پریس کانفرنس کیوں کی، اب جبکہ عدالت عظمیٰ نے ان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ میاں صاحب بجائے کسی ہسپتال سے علاج کرانے کے ٹیسٹ ہی کراتے رہے۔ دوسری طرف ان کی شعلہ نوا صاحبزادی مریم نواز نے بھی اپنے والد کے حوالے سے چند ٹویٹس کے علاوہ مہر سکوت نہیں توڑا۔ میاں شہباز شریف مسلم لیگ(ن) کے صدر، قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس مسئلے پہ دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اپوزیشن لیڈر کو ہی بننا چاہئے، جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے جواز دیا گیا کہ ایساشخص جو خود نیب کے کیسز میں ملوث ہے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کیسے کر سکتا ہے لیکن خاصی تگ ودو کے بعد برادر خورد پی اے سی کے چیئرمین بن گئے۔ لیکن اب انھوں نے اچانک لندن سے اعلان کیا ہے کہ وہ دستبردارہو رہے ہیں اور اپنی جگہ رانا تنویر کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد کر دیا۔اس سے نہ صرف حکومتی جماعت بلکہ مسلم لیگ(ن)کی لیڈر شپ بھی حیران وششدر رہ گئی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر بنا دئیے گئے ہیں اور شہباز شریف کی عدم موجودگی میںقائم مقام صدر ہونگے جبکہ خواجہ آصف پارلیمانی لیڈر ہونگے۔ مریم نوازبھی پارٹی کی نائب صدر بن گئیں، یہ تبدیلیاں کرنے سے پہلے شہباز شریف نے غالباً بڑے بھائی سے مشورہ کیاہو گا لیکن نہ تو پارلیمانی پارٹی کااجلاس بلایا گیااور نہ ہی مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا۔ اسی رویہ پر مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ میں برہمی پائی جاتی ہے۔ رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کہا کہ پارٹی کے اندر اسٹیبلشمنٹ گروپ بن گیا ہے جب پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تویہی گروپ آگے ہوتا ہے۔ سعد رفیق نے کہا بتایا جائے کہ پارٹی کی اس وقت کیا پالیسی ہے، میاں نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ خاموش ہو گیا ہے۔ شریف برادران کا یہ رویہ ان کے میلان طبع کے عین مطابق ہے۔ جب پرویز مشرف نے 1999ء کے ’کو‘کے بعد انہیں پابندسلاسل کیا تھا تو ایک سال کے کچھ عرصہ بعدہی بعض عرب حکمرانوں کے ذریعے ایک خفیہ ڈیل کرکے برادران اپنے اہلِ خانہ سمیت جدہ پد ھار گئے تھے۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) کی لیڈرشپ کو بھی اس کی کانوںکان خبر نہیں ہوئی تھی اور انھیں اس وقت پتہ چلا جب وہ سرور پیلس پہنچ چکے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت سید مشاہد حسین پنجاب ہاؤس راولپنڈی میں قید تنہائی میں تھے انہیں جب نماز عیدکیلئے باہر نکالا گیا تو وہ یہ سن کر کہ میاں برادران تو بمعہ اہل و عیال سعودی عرب جا چکے ہیں دنگ رہ گئے یقیناً انہوں نے سوچا ہو گا کہ پھر میں کیوں قید کاٹ رہا ہوں۔ پیپلز پارٹی اپنی جگہ برہم ہے کہ اس نے بڑی تگ ودو کر کے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے کے لیے بھرپور سٹینڈلیا لیکن انہیں اعتمادمیںلئے بغیر ہی رانا تنویرکو نامزد کردیا گیا۔ شاہ محمود قریشی جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ان معدودے چند سیاستدانوں میں ہیں جو سوجھ بوجھ اور بصیرت رکھتے ہیں کو بھی کہنا پڑاکہ شہباز شریف کے اس اچانک فیصلے سے پارلیمنٹ کے اندرپیچیدگیاں پیدا ہونگی۔وزیر ریلوے شیخ رشید جو چست فقرہ بازی کے حوالے سے مشہور ہیں کہتے رہتے ہیں کہ شہباز شریف وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں اور نواز شریف کی ضمانت کرانے میں بھی ان کا ہاتھ تھا لیکن لگتا ہے کہ چھوٹے میاں کلین بولڈ ہو گئے ہیں ۔ مصیبت یہ ہے اس کے باوجود کہ عمران خان اور حکمران جماعت کے رہنما کئی مرتبہ کہہ چکے ہیںکہ ڈیل ہو گی نہ ڈھیل لیکن شریف برادران کا رویہ دال میں کچھ کالا ہونے کے مترادف ہے۔ شہباز شریف نے مقدور بھر کوشش کی کہ کسی طرح خود کو ایک میانہ رو پرو اسٹیبلشمنٹ سیاستدان کے طور پر قابلِ قبول بنا سکیں ان کی یہ کاوش یکسر نا کام رہی ہے اور غالبا ً اب مایوس ہو کر علاج کے بہانے لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پرویز مشرف کے ایک سال مکمل ہونے پرانھوں نے چند صحافیوں کوگورنر ہاؤس لاہور میں بریفنگ اور لنچ کے لیے مدعو کیا، اس موقع پر چند ایڈیٹرز کی موجودگی میں،جن میں،میں بھی شامل تھا، ضیاء شاہد صاحب نے پرویز مشرف سے سوال کیا کہ چھوٹے شریف کے لیے آپ کا سافٹ کارنر ہے تو انہوں نے تھوڑے جذباتی انداز میں کہا کہ ایسا نہیں ہے یہ دونوں بھائی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں وہ کسی تفصیل میں جائے بغیر غالباً چودھری نثار اور شہباز شریف کی اس میٹنگ کا حوالہ دے رہے تھے جس میں یقین دلایا گیاتھا کہ ہمارے اور آپ کے تعلقات بہت اچھے ہیں،آپ سری لنکا کا سرکاری دورہ کریں۔ یاد رہے کہ سری لنکا سے واپسی پر جب وہ جہاز میں ہی تھے تو نواز شریف نے انہیں فارغ کرنے کی نا کام کوشش کی تھی اِسی پس منظر میں پرویزمشرف کا کہنا تھا کہ ایک نے یہ کہہ کر کہ میں وضو سے ہوں جھوٹ نہیں بولو ں گا اور دوسرے نے یہ کہہ کر کہ رزق سامنے پڑا ہے، پھر بھی مجھے دھوکا دیا۔ لیکن آج کی صورتحال میں جب عمران خان کسی کو این او آر دینے کے لئے تیار نہیں، سپریم کورٹ کسی دباؤ کو قبول کئے بغیر آزادانہ فیصلے کر رہی ہے اورجہاں تک فوجی قیادت کا تعلق ہے، وہ ایسے معاملات میں براہِ راست ملوث نہیں ہونا چاہتی۔ عمران خان جب کہتے ہیںکہ میں این آر او نہیں دو ں گا تو وہ فوجی قیادت کو بھی کہہ رہے ہوتے ہیںکہ مجھ سے ایسی توقع نہ کریں۔ موجودہ صورتحال میں اگر شریف خاندان نے حکمت اور برد باری سے کام نہ لیا تو وہ پارٹی جو پرویز مشرف کی ریشہ دوانیاں برداشت کر گئی تھی اور حالیہ انتخابات میں بھی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت رہی کہیں نئے حالات میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوجائے۔