دریائے راوی کے شمالی کنارے پر ایک جدید نیا شہر تعمیر کرنے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ نہ بنا تو لاہور کا حال بھی کراچی جیسا ہو جائے گا۔انہوں نے اپنے دو سالہ دور اقتدار میں آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشکل وقت گزر گیا اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی ترجیح ایسے منصوبے بتائے جن کو جاری رکھنے کے لئے حکومت کو سبسڈی نہ دینا پڑے۔ حکومت کی طرف سے 50ہزار ارب روپے کی لاگت والے منصوبے کو ماحول دوست‘ جدید تعلیمی ضروریات‘صحت کی سہولیات‘ کاروباری مواقع‘ سرکاری دفاتر‘ کھیلوں کے میدانوں اور دیگر سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت دریائے راوی پر 3مقامات پر بیراج تعمیر ہوں گے جن میں 271ارب لٹر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہو گئی46کلو میٹر طویل جھیل بنا کر زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے کی تدبیر کی جا رہی ہے۔ یہ جھیل سیلابوں اور شدید بارشوں کے دوران پانی کو روکنے کے کام آئے گی۔ اس منصوبے میں دریائے راوی کے پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنانے کا کام بھی شامل ہے۔ نئے شہر کو کوڑا کرکٹ سے بچانے کے لئے گندے نالوں کے پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر سالڈ ویسٹ سے پاک کیا جائے گا۔ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ نئے شہر میں 60لاکھ درخت لگا کر ماحولیاتی آلودگی میں کمی اور قدرتی حیات کی افزائش کا بندوبست کیا جائے گا۔ نئے شہروں کی تعمیر عموماً چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی جانب انتقال آبادی کو روکنے کے مقصد سے کی جاتی ہے۔ کراچی‘ لاہور ‘ فیصل آباد‘ پشاور‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ‘ حیدر آباد‘ گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں علاج معالجے‘ تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع قصبات اور دیہات کے لوگوں کو ہجرت پر مائل کرتے ہیں۔ اس رخ سے دیکھا جائے تو نئی آبادیاں اور شہر بسانے کے لئے بڑے شہروں سے چالیس پچاس کلو میٹر دور منصوبہ شروع کیا جا سکتا ہے‘راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبے کو اس پہلو سے دیکھیں تو لاہور شہر کے بالکل ساتھ شہر تعمیر کرنے کی نسبت بہتر تھا کہ نیا شہر مانگا منڈی یا پتوکی کے قریب دریا کے دوسری طرف تعمیر کیا جاتا۔ یوں آبادی کا بوجھ کم ہو جاتا۔ اس امر کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر لوگ بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں ان کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے۔ بلا شبہ سابق حکومتوں نے اس معاملے میں کوتاہی برتی۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومتوں نے اس اہم ترین معاملے کو کبھی اہمیت نہیں دی تو اس میں باک نہ ہو گا‘ پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ اس لئے کیا گیا کہ ڈی جی خان اور ملتان کے لوگوں کو سرکاری کاموں کے لئے سیکڑوں کلو میٹر کا سفر کر کے لاہور آنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر اوکاڑہ‘ قصور‘ ساہیوال‘ نارووال ‘ سیالکوٹ اور شیخو پورہ کے لوگوں کے انتظامی مسائل ان کی ضلعی انتظامیہ حل کرنے میں ناکام رہی یا اس کے پاس مسائل حل کرنے کا اختیار نہ ہو تو لامحالہ ان شہروں کے اساتذہ‘ ڈاکٹروں‘ پولیس اہلکاروں اور دیگر افراد کو ہر روز پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور آنا پڑے گا یا پھر اپنے محکمے کے متعلقہ دفاتر جانا ہو گا۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ میں بھی یہ خامی رہے گی کہ وہاں کی آبادی کو لاہور کے وسائل پر بوجھ بنایا دیا جائے گا۔ یہ لوگ ضروری ریکارڈ‘ احکامات اور ہدایات کے لئے لاہور کے موجودہ انتظامی ڈھانچے سے رجوع کریں گے یوں لاہور کے دفاتر اور سڑکوں پر مزید رش پڑ سکتا ہے۔ اس سے نئے شہر بسانے کا ایک بڑا مقصد ختم ہو جاتا ہے لہذا نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم پر توجہ دی جائے۔ نئے شہر کی تعمیر کا منصوبہ بڑی لاگت کا ہے۔ ہزاروں ایکڑ اراضی حاصل کی جا رہی ہے۔ نالج سٹی‘ میڈیکل سٹی‘ فنانشل سٹی‘ سپورٹس سٹی اور انوویشن سٹی کے الگ الگ حصے بنائے جا رہے ہیں۔ اب تک سرکاری منصوبوں کی حالت ایل ڈی اے ایونیو ون اور ایل ڈی اے سٹی کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ عشروں سے یہ منصوبے سرکاری افسران کی بدانتظامی اور بدعنوانی کے باعث عوام کی اذیت کا سامان بن چکے ہیں۔ نئے شہر کی ڈویلپمنٹ کے لئے ملک کے بڑے سرمایہ کاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ بلا شبہ یہ لوگ اس طرح کے منصوبوں کے لئے درکار فنڈز کے بندوبست میں مددگار ہوں گے لیکن لاہور شہر میں ایسے کئی سرمایہ کار ہیں جو بڑے پیمانے پر تعمیرات اور ہائوسنگ سہولیات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دو تین برسوں میں پورا شہر ڈیزائن کرنے سے لے کر تعمیرات تک مکمل کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کو منصوبے میں شریک کیا جائے تو تاخیر کے اندیشوں سے نجات مل سکتی ہے۔ اصل بات کسی منصوبے کا بروقت مکمل ہونا ہے۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد میگا منصوبوں میں تبدیلی یا التوامعمول بن چکا ہے۔ وزیر اعظم کو توقع ہے کہ نئے شہر کی تعمیر سے جہاں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا‘ روزگار کے بہت سے مواقع پیداہوں گے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر فنڈز استعمال ہونگے‘ لاکھوں افراد یہاں رہائش کے لئے رجوع کریں گے۔ یہ ساری سرگرمیاں حکومت کی ان توقعات کے عین مطابق ہو سکتی ہیں جو اس نے نئے شہر سے وابستہ کر رکھی ہیں لیکن ایک دوسری تصویر بھی پیش نظر رہے۔ ماحول دشمن پودوں کا لگانا‘ غیر معیاری کام، قانونی رکاوٹیں اور پھر کام میں تاخیر سے یہ سارے خواب بے رنگ ہو سکتے ہیں۔