یہ کوئی سیاسی کالم نہیں ہے نہ میرا ارادہ اس فیصلے کے حسن و قبح پر بات کرنا ہے۔ صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس فیصلے کے ساتھ کیسے پروان چڑھا۔ پھر بھی میں اسے اگر اپنے بچپن کی یادیں کہوں تو بھی غلط ہوگا۔ قصہ یہ ہے کہ میں منٹگمری کا رہنے والا ہوں جسے اب ساہیوال کہتے ہیں۔ یہ اس وقت ایک ضلع تھا‘ اب تو ڈویژن ہے۔ ہم ملتان ڈویژن کا حصہ تھے اور اس پر مطمئن تھے مگر تعلیمی اور علمی طور پر ہم خود کو لاہور سے وابستہ سمجھتے تھے۔ ڈگری ہمیں پنجاب یونیورسٹی کی ملتی تھی‘ اس سے پہلے ایف اے اور میٹرک کے امتحانات بھی لاہور بورڈ لیا کرتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ملتان میں بھی امتحانات کے لیے ایک بورڈ بنا دیا گیا۔ ہمیں ان نوجوانوں سے ہمدردی ہوتی تھی جنہیں اب لاہور بورڈ کی سند نہیں ملے گی۔ ایک طرح کا ترس آتا تھا۔ سچ بتا رہا ہوں۔ پھر یوں ہوا کہ پتا چلا کہ رائٹرز گلڈ کے ڈھاکہ اجلاس میں ملتان کے ایک ادیب ریاض انور نے سرائیکی زبان کو الگ حیثیت دینے کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ ایسی ہی کچھ بات تھی۔ ساہیوال کو اپنے مجید امجد‘ منیر نیازی اور ادیبوں کے ایک پورے گروہ پر ناز تھا۔ رائٹرز گلڈ والے بھی اسے الگ سب ریجن تسلیم کرتے تھے۔ اس لیے ہمیں کچھ اچھا نہ لگا۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ سرائیکی کا لفظ ساٹھ باسٹھ میں ایک کانفرنس میں طے کیا گیا اور یہ نام ہمارے بزرگ حسان الحیدری کا تجویز کردہ تھا۔ زبان کے لحاظ سے ڈیڑہ والی‘ ملتانی‘ ریاستی ہر علاقے کے اپنے اپنے نام تھے۔ بلکہ ایک زمانے میں جب ساہیوال کو بھی سرائیکی صوبے میں شامل کرنے کی بات ہوئی تو کہا جاتا کہ یہ جو اس علاقے کے دیہاتوں میں بولی جانے والی زبان ہے اور جسے ہم جانگلی کہتے ہیں جو اصل سرائیکی ہی ہے۔ حسان الحیدر سے رابطہ ستر کے عشرے کے شروع میں ہوا تھا جب میں ان کے ساتھ بھر چونڈی شریف گیا تھا۔ بہت پہلے ہمارے شورش کشمیری کی جو شامت آئی تو بریلوی دیوبندی مسئلہ چھیڑ دیا۔ حسان الحیدری نے جواب میں کیا کیا نظمیں لکھیں۔ چٹان نام کا ایک پرچہ خاص طور پر اس کام کے لیے نکالا گیا جس نے دھوم مچادی۔ آغا شورش کشمیری کے منہ آنا معمولی بات نہیں۔ مطلب یہ کہ ہم مزاجاً لاہور کی طرف جھکے ہوئے تھے مگر کہیں کہیں ملتان بھی راستے میں پڑتا تھا۔ میں کراچی سے جب ساہیوال آتا تو لاہور کا ٹکٹ لینے کے بجائے ملتان کی پرواز پکڑتا۔ صرف اس لیے کہ سستی پڑے گی۔ سچ پوچھئے تو کبھی تسلیم کر کے نہیں دیا کہ ہم اس کلچر کا حصہ ہیں جسے بعد میں سیاسی طور پر سرائیکی کا نام دیا گیا۔ اس میں حرج بھی کوئی نہیں ہے۔ سندھی رسم الخط کوئی جدی پشتی تھوڑا ہے۔ غالباً 1851ء میں انگریز نے رائج کرایا تھا مگر اب سندھ میں کوئی اردو‘ عربی‘ فارسی رسم الخط پر عبور رکھے یا نہ رکھے سندھی رسم الخط میں لکھی ہوئی سندھی تحریریں خوب مزے لے لے کر پڑھتا ہے۔ اب آپ لاکھ کہیں کہ ساٹھ برس پہلے ادب میں سرائیکی کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ خواجہ غلام فرید کا نام بھی پنجابی شاعر کے طور پر آتا تھا مگر اب یہ ایک حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب اب ایک مقبول عام بیانہ بن چکا ہے۔ اس کے حق میں اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ میں نے صاف صاف عرض کردیا کہ مجھے اس پر بعض نفسیاتی اور ثقافتی تحفظات ہیں۔ ایک دوبار ارادہ کیا کہ ذرا سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کیا جائے مگر دل پھر طرح دے جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ صوبائی مسئلہ ہے ہی نہیں بلکہ وفاق کا مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ مثال کے طور پر جب صوبہ بنے گا تو آپ کو سینٹ میں اسے برابر کی نمائندگی دینا پڑے گی۔ اس طرح دوسرے صوبے یہ کہیں گے کہ آپ نے پنجاب کی نمائندگی دوگنی کردی۔ ہم گلگت بلتستان کو یہ حق نہ دیں گے‘ فاٹا کو الگ صوبہ نہ بنا سکے۔ پھر ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب میں ایسی دوری نہیں جیسی کراچی اور اندرون سندھ میں ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ وہاں تو تحریک نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ آپ آج قدم اٹھائیں کراچی میں الگ صوبے کا نعرہ لگنے لگے گا۔ البتہ اندرون سندھ اس نعرہ کی پذیرائی اس لیے نہیں ہوگی کہ کراچی نکال دو تو سندھ کے پاس بچتا کیا ہے۔ ویسے اگر اسی طرح فیصلہ کرنا ہے تو خیبرپختونخوا میں ایبٹ آباد کو الگ کرنے کی تحریک تو بہت زوروں پر تھی۔ بلوچستان میں پختون‘ بلوچ دوری کم نہیں ہے اور وہ بھی متبادل معاشرے والی۔ اس کے باوجو میں اس کا حامی ہوں کہ اگر وہاں کے عوام چاہیں یا انتظامی طور پر یہ مناسب ہو تو اسے الگ صوبہ بنا دیا جائے تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کے نتیجے میں ملک میں نئے مسئلے پیدا نہ ہوں۔ خود اس نئے صوبے کے اندر یہ سوال نہ اٹھ کھڑا ہو کہ فلاں ڈویژن باقیوں کا استحصال کر رہی ہے۔ بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے والے جہاں دوسرے دلائل رکھتے ہیں وہاں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں الزام آئے گا کہ ملتان ڈویژن ریاست بہاولپور کا استحصال کررہا ہے۔ یہ بات بھی طے کرلی جائے بہاولپور والے کہتے ہیں ہم سے تو ون یونٹ بناتے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر یہ ون یونٹ ختم ہوا تو ریاست بہاولپور الگ صوبہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ میں اس حوالے سے سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ مثال کے طور پر بہاولنگر والوں سے پوچھ لو کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اب اگر کچھ کرنا ہے تو بات سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ایک بات یہاں میں بڑی سنجیدگی سے کہنا چاہتا ہوں کہ صوبے مقدس نہیں ہیں‘ مقدس ہے تو ملک ہے۔ جسے ہم ریاست کہتے ہیں وہ ملک کو کہتے ہیں‘ صوبوں کو نہیں۔ ہم نے جو دلائل کی بنیاد پر صوبوں کو تقدس دیا ہے اس نے کئی مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ جسے دھرتی ماں کہتے ہیں وہ وطن عزیز ہے صوبے نہیں۔ اس پر یہاں میں بحث نہیں کرنا چاہتا کہ پاکستان اکائیوں کے ملنے سے بنا تھا یا اس میں کچھ اور بھی تھا۔ اکائیوں سے مل کر بنا ہوتا تو بنگال اور پنجاب تقسیم نہ ہوتے۔ سندھ تو پہلے ہی ممبئی سے الگ ہو گیا تھا۔ جب مشرف نے شہری حکومتوں کا نظام رائج کیا تو نعرہ لگا کہ اس میں صوبوں کو بائی پاس کر دیا گیا ہے اور سارے اختیار مرکز نے براہ راست بلدیات کو دے دیئے ہیں۔ صوبے نظر انداز ہو گئے ہیں۔ ہم نے اس کے بعد ہی اٹھارویں ترمیم کا ڈول ڈالا۔ آج اس حوالے سے جو اعتراضات آ رہے ہیں اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم نے صوبوں کو ملک پر بھی ترجیح دی اور صوبے کے اندر مختلف یونٹوں پر بھی۔ اور یہ تک کہنے لگے کہ بنیادی اکائی صوبہ ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں اگر بلدیات کو اختیار مل جاتے تو آج وہ مسائل پیدا نہ ہوتے جو فاصلوں اور دوری کے نام کے انتظامی نکتہ نظر سے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ تجویز گردش میں رہی ہے کہ ملک کو 12 یا 15 صوبوں میں تقسیم کردیا جائے۔ بے نظیر نے بھی یہ تجویز کیا تھا کہ ہم ضلعوں میں لیفٹیننٹ گورنر مقرر کردیں۔ یعنی اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے کہ عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے دور نہ جانا پڑے۔ یہ اب جو سوال پیدا ہورہے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ انتظامی طور پر ہم ایسا بندوبست نہ کر سکے کہ عوام کے لیے فاصلے کم ہوں۔ اس بات کا اہتمام البتہ ضروری ہے کہ انتظامی معاملہ تنگ نظری اور تعصب نہ بن جائے۔ بنائیے نئے صوبے شوق سے بنائیے مگر پھر آپ کو صوبوں کو مقدس سمجھنا چھوڑنا پڑے گا۔ ہم ایسا نہیں کر رہے۔ ایسے میں صوبوں کی تقسیم پر دل دھڑکنا بے سبب نہیں ہے۔ نیت نیک ہو تو معاملات خوش شگفتگی سے طے کئے جا سکتے ہیں وگرنہ ہر راستے میں رکاوٹیں ہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ بعض اچھے خاصے ذہین اور سمجھ دار لوگ اپنی بات کے حق میں ایسے دلائل لاتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔