پاکستان میں دینی مدارس کی سرکاری سطح پر تحسین اور پذیرائی کا سلسلہ مرحوم صدر ضیاء الحق کے دور میں مؤثر ہوا، جب 17؍جنوری 1979ء کو ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتہ کی سربراہی میں وفاقی سطح پر’’قومی کمیٹی برائے دینی مدارس‘‘قائم ہوئی، جس کو مقررہ مقاصد و اہداف کے حصول کے لیے مکمل حکومتی اور سرکاری سرپرستی فراہم کرتے ہوئے، وفاقی وزارتِ مذہبی امور پاکستان اور صوبائی حکومتوں کی بھرپور معاونت دستیاب ہوئی۔ اس اعلیٰ سطحی کمیٹی میں اکابر علماء ، معتبر دینی شخصیات ، ممتاز ماہرین تعلیم، جامعات کے وائس چانسلرز اور سرکاری عمائدین و افسران شامل تھے۔ تقریباً تیس رکنی اس کمیٹی کی سفارشات کو حکومتی سطح پر پذیرائی عطا ہوئی، جس کی نہایت کلیدی اور اہم سفارش یہ تھی کہ دینی مدارس کے مختلف وفاقوں /تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل’’ قومی ادارہ برائے دینی مدارس پاکستان‘‘ تشکیل ہو، جو درجات ابتدائی، وسطانیsecondary، فوقانیtertiary اور تخصص Specializeکے امتحانات کے انعقاد ، نتائج کے اعلان اور اسناد کی تقسیم وغیرہ کے فرائض سرانجام دے،یہ ’’قومی ادارہ برائے دینی مدارس‘‘وفاقی وزارتِ مذہبی امور حکومت پاکستان کی سرکردگی میں کام کرے گا، اور امتحانات ، نتائج اور اسناد کا اجراء اس ادارے ہی کو تفویض ہوں گے۔ اسی ہالے پوتہ رپورٹ کی روشنی میں درسِ نظامی کی سند ’’شھادۃ العالمیہ فی العلوم العربیہ والاسلامیہ‘‘کو تدریسی اور تحقیقی امور کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے ایم اے عربی /اسلامیات کے برابر قرار دیا گیا ،چونکہ نظام تعلیم میں امتحانات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، قومی کمیٹی نے دینی مدارس کے نظام امتحانات کا جائزہ لے کر ، انہیں موثر اور شفاف بنانے پر زور دیتے ہوئے مختلف سفارشات پیش کیں، جن میں اہم یہ تھی کہ نظام مدارس میں مختلف درجات کے امتحانات کو ، عام نظامِ تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، اور عصری تعلیم کی طرح مدارس کے داخلی امتحانات ، مدارس خود لیں، اور ان کے آخری امتحانات ، ثانوی تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹی کی طرح’’قومی ادارہ برائے دینی مدارس‘‘لے۔ اس فارمولے کے مطابق ، دینی مدارس کے طلبہ بھی ، عام نظام تعلیم کے طلبہ کی طرح اعلیٰ تعلیم یا ملازمت کے حصول کے حقدار ہو سکیں ۔ اور یوں دینی مدارس کا نظام امتحانات بھی عام نظامِ تعلیم کے امتحانی سسٹم کے ساتھ مربوط ہو سکے ۔ اس کے ساتھ، مذکورہ قومی کمیٹی نے یہ سفارش کی تھی کہ ملکی سطح پر ایسی قانون سازی ہو‘ جس کے وسطانی (Secondary)فوقانی (tertiary)اور تخصیص(specialize) جو بالترتیب میٹرک‘ بی اے اور ایم اے ہوں اور سرکاری کالجوں‘یونیورسٹیز میں داخلوں اور سرکاری اداروں اور حکومتی محکموں میں وہ اسی دینی تعلیم کے ساتھ ملازمت کے اہل ہوں اور ملازمتوں کے اشتہار میں مطلوبہ قابلیت کے ضمن میں میٹرک کے ساتھ وسطانی‘ بی اے کے ساتھ فوقانی اور ایم اے کے ساتھ تخصص کا بھی اندراج ہو۔ پاکستان کی تمام مساجد بشمول سرکاری اور غیر سرکاری اوقاف‘ فوج کی مساجد میں کم از کم درجہ فوقانی کے سندیافتہ علماء کا تقرر اور ابتدائی طور پر ان کا چودھواں سکیل ہو۔اسی طرح بیرون ملک‘ دینی تعلیم کے وظائف‘ مدرسہ امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کے لئے قائد اعظم سکالر شپ اور نشان حیدر سکالر شپ دیے جائیں۔ اسی طرح اس کمیٹی کی طرف سے ایک مربوط اور جامع نصاب تعلیم جو کہ عصری علوم اور تقاضوں سے بھی مربوط اور ہم آہنگ تھا۔ ترتیب دیا گیا‘ مگر ’’بوجوہ‘‘ یہ سب کچھ آگے نہ بڑھ سکا۔کیا ہی اچھا ہوتا ، اگر اس وقت ’’قومی ادارہ برائے دینی مدارس‘‘ قومی اور ملکی سطح پر تشکیل پا کر بین المسالک ہم آہنگی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتا ، مگر ایسا نہ ہوسکا ۔۔۔ اور پھر قومی اور بین الاقوامی افق پر اس ضمن میں کئی انقلاب آئے، لیکن 9/11کے بعد دہشت گردی کی نئی تعریف و تعبیر اور اس کے تانے مدارس اور محراب ومنبر کے ساتھ جوڑنے کے بین الاقوامی پراپیگنڈے میں، حکومتی قائدین اور مدرسہ لیڈر شپ کے درمیان بہت سی غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا۔ آنے والوں دنوں میں یہ خلیج بڑھتی ہی چلی گئی، اور یوں گذشتہ برسوں سے مدرسہ قیادت اور سرکاری عمائدین کے درمیان اچھے تعلقاتِ کار قدر معدوم ہی رہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان میں مدارس کا نظام نہایت موثر اور مربوط انداز میں سرگرمِ عمل ہے، اور شاید یہ واحد دینی قوت ہے جو اپنے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے کہیں بھی خود کو کمزور نہیں پڑنے دیتی۔ وطنِ عزیز پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیا میں’’مدرسہ ایجوکیشن‘‘پرائیویٹ سیکٹر ہی میں سرگرمِ عمل ہے،پاکستان میں اس وقت کم و بیش سولہ ہزار سے زائد رجسٹرڈ مدارس ،جہاں تقریباً لاکھوںطلبہ زیر تعلیم ہیں،جو مدارس کی ایک موئثر اور مضبوط قوت ہیں، جن کی ضابطہ بندی کے لیے مدرسہ لیڈر شپ گذشتہ نصف صدی سے بہت مستعد اور چاک و چوبند ہے، انہوں نے اپنے اپنے مسالک کے مطابق اپنے انتظامی اور امتحانی بورڈ ز تشکیل دے رکھے ہیں، جہاں سرکاری سیکنڈری بورڈز کی طرز پر، بہترین کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ اچھی مینجمنٹ اور روایتی تدریسی نظام بھی موجود ہے۔ پاکستان میں اس وقت سرکاری سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ہر مسلک کاایک ایک بورڈ منظور شدہ ہے۔ گذشتہ ہفتے حکومت پاکستان نے دینی مدارس کے لیے 5نئے بورڈز کی منظوری کا بھی اعلان کر دیا ہے، جس کے مطابق نظام المدارس پاکستان ،اتحاد المدارس العربیہ مردان ، اتحاد المدارس الاسلامیہ لاہور، وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ، مجمع المدارس تعلیم والحکمہ لاہور،جبکہ جامعۃ الرشید ٹرسٹ کراچی کو انسٹیٹیوٹ کا درجہ دیا گیا۔ اس فیصلہ سے قبل، وفاقی وزارت تعلیم کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ دینی مدارس کے پانچ نمائندہ وفاق المدارس ملحق تھے۔ جن میں وفاق المدارس العربیہ دیوبندی مکتبہ فکر، تنظیم المدارس اہل سنت بریلوی، وفاق المدارس الشیعہ، وفاق المدارس السلفیہ، رابطۃ المدارس (جماعت اسلامی) شامل تھے، وفاق المدارس دینی مدارس کے لیے ایک بورڈ کا درجہ رکھتے ہیں جو طلبا و طالبات کو سند جاری کرتے ہیں ، ان کے علاوہ پاکستان کے کچھ معروف دینی اداروں کو انفرادی سطح پر Degree Awarding institute کا درجہ حاصل تھا۔ ان میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن، دارالعلوم کراچی، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ اور دارالعلوم اہلحدیث فیصل آباد شامل تھے،گورنمنٹ نے گذشتہ عرصے میں کچھ مزید ’’ریفارمز‘‘کی ہیں، جس میں’’مدرسہ رجسٹریشن‘‘کو بھی سہل بنایا ہے۔ اب یہ وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ دینی مدارس قائم کیا گیا ہے جس کے ساتھ صوبوں میں بھی مختلف مقامات پر 16زونل دفاتر قائم ہوئے ہیں ، جس طرح مختلف نجی یونیورسٹیز ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ الحاق کر کے اپنی سند جاری کرتی اور ملک بھر میں اپنے کیمپس بنا سکتی ہیں، اسی طرح دینی جامعات کو وفاقی بورڈ کا درجہ ملنے سے وہ بھی دیگر مدارس کا الحاق کر سکیں گے۔ نئے بورڈز کی تشکیل کو مختلف انداز میں دیکھا جا رہا ہے، حالانکہ اس میں ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ چالیس سال قبل، جب ان پانچ مدرسہ بورڈز کو گورنمنٹ نے Recognise کیا تھا تو اس وقت مدارس کی تعداد آج کے مقابلے میں انتہائی محدود تھی، گذشتہ عرصے میں دینی مدارس اور ان کے طلبہ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح گذشتہ عرصے میں سیکنڈری بورڈز کی تعداد بھی تقریباً دوگنا ہوچکی ہے۔