مکرمی! کچھ باتیں کچھ سوچیں اور کچھ منظر بہت اذیت ناک ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی زندہ نعش کسی قبر کی اوٹ میں پڑی ہو۔ یا کہیں کوڑے کے ڈھیر پہ یا پھر کسی گندے بدبودار نالے کے کنارے۔ آجکل ایسے مناظر اکثر دیکھنے والوں کی روحوں کو تڑپاتے ہیں۔ بدقسمتی کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ ایسے لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز کی رپورٹ کے مطابق وطن عزیز کی 7.6 ملین آبادی نشے کی لت میں مبتلا ہو کر اپنے اشرف ہونے کے شرف سے منحرف ہو رہی ہے جس میں % 78 مرد جبکہ %22 خواتین شامل ہیں اس میں 6.7 ملین وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 25 سے 39 سال کے درمیان ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ دل دہلانے والی بات ہے کہ ان کی تعداد میں 40000 سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں شرمناک حقیقت یہ ہے یہ تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جو ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں۔ افیون، آئس، چرس، سگریٹ، گٹکا اور دیگر اقسام کے استعمال کنندگان کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ خدا جانے معاشرے کے دبائو کا پھندہ کبھی محرومی کے نام پر کبھی عیاشی کے نام پر اور کبھی غم غلط کرنے کے نام پر انکی گردن میں ایسا پھنسا ہے کہ اسم عظیم پیشانی میں رکھنے والے صبر صمیم کا بھار اٹھانے والے گلی گلی گھسیٹے جا رہے ہیں۔ دنیا و مافیا سے بے نیاز یہ لوگ معاشرے کا عضو معطل بنے ٹکے ٹکے کی عوض اپنی خلافت بیچ دیتے ہیں۔ نہیں خبر کہ اگلے قدم، اگلے لمحے، اگلی ساعت ایسا کوئی زندہ انسان جیسا مردہ کسی روپ میں ہم سے ٹکرا جائے۔ یہ سب ہمارے اپنے ہیں اور ایسے بظاہر زندہ لوگوں کو رونا پڑھ جائے تو عمر بھرآنکھوں سے نمی خشک نہیں ہوتی۔ خدارا اپنوں کا ہاتھ محبت سے تھامے رکھیں احساس کی زنجیر سے ایسا جکڑے رکھیں کہ برائی کی ایسی کوئی دلدل انہیں اپنی جانب متوجہ نہ کر سکے۔ والدین کے ساتھ حکومتی اداروں کو بھی چاہیے کہ اس کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ مستقبل کے معماروں کو اس اندھیر نگر سے بچایا جا سکے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن )