یہ بات باعث تعجب ہے کہ اس بارکچھ سیاسی جماعتوں اور مذہبی گروہوںکی سرگرمیاں کشمیر کے بارے میں عوام میں جوش و خروش پیدا کرنے کے بجائے محض رسمی سوانگ رچانے تک ہی محدود ہیں۔ جبکہ ماضی میں اس سے کہیں کم شدت کے واقعات پر بھی مذہبی جماعتیں سڑکوں پر نکل آتی تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سارے حلقے اس تبدیلی کوقومی اور سٹریٹجک معاملات پر مذہبی جماعتوں کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے تبدیل ہوتی سوچ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔دائیں بازو کی جماعتوں کے بارے میں عام تاثر یہی رہا ہے کہ جب بھی پاکستان کواپنے ہمسایہ ممالک یا پھر امریکہ سے معاملہ کرنے میںمشکلات محسوس ہوتیں تو مذہبی حلقے اپنی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ شروع کر دیتے تھے۔ حالیہ برسوں میں دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔2011ء میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں پاکستانیوں کے قتل کے خلاف بھی مذہبی جماعتوں نے بھر پور انداز میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن پاکستان میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کا انتظامی ڈھانچہ ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں فرقہ پرست عناصر موجود ہیں جو گاہے بگاہے ایران اور سعودی عرب سے اپنی ہمدردی اور وفاداری ثابت کرنے کے لئے بھی سرگرم رہتے ہیں۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان پر عالمی برادری کا ایف اے ٹی ایف کی صورت میں بڑھتا دبائو بھی مقتدرحلقوں کو مذہبی حلقوں سے نئی صف بندی پر مجبور کر رہا ہے۔ جو پاکستان کو سفارتی اور معاشی میدان میں معاون ہو سکتی ہے ۔جب کہ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سٹریٹ پاور کو اخلاقی اور سیاسی اہمیت بڑھانے کی وجہ سے مذہبی جماعتوں سے عاجز آ چکی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے تجربے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ خراب ہوئی بلکہ ملک میں مسلکی خلیج بھی بڑھی ہے۔ ابھی معاشرے کو فرقہ وارانہ بیانیے سے نجات کے لئے مزید کچھ وقت درکار ہو گا۔ گزشتہ چند برسوں میں میڈیا آرمی چیف کی علماء اکرام سے متعدد ملاقاتوں کو رپورٹ کرچکاہے ۔ان ملاقاتوں میں شنید ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے علماء اکرام سے فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ بظاہر آرمی چیف کا علماء اکرام سے رویہ خاصا نرم اور احترام پر مبنی رہا ہے جس کے ثمرات بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں یہاں تک کہ فرقہ پرست عناصر کی قیادت بھی اپنے رویے تبدیل کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اس کے اثرات ریاست اورعلماء کے حالیہ طرزعمل میں نظر بھی آ رہے ہیں۔ مذہبی قیادت سے معاملہ کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کا اصل امتحان نرم رویہ اور خوشامدانہ پالیسی میں فرق کو برقرار رکھنا ہو گا۔تمام مذہبی حلقوں میں اتنی لچک اور رجحان موجود ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے بدلتے رویہ سے مماثلت قائم کرسکیں ۔ مذہبی حلقے سیاسی اور عسکری قیادت سے انٹرایکشن کے دوران اپنا جواز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ مذہبی حلقے بالکل ہی مغلوب ہو چکے ہیں ۔در حقیقت یہ مقتدر حلقوں میں اثرورسوخ نکالنے کا فن جانتے ہیں اور حالیہ ریاست کی علماء سے میل ملاقاتیں اس کا ثبوت ہے۔ پیغام پاکستان کی صورت میں 1800جید علماء نے انسداد دہشت گردی کے دستاویز پر دستخط کئے ہیں۔ تاکہ پاکستان کے مثبت مذہبی بیانیے کو فروغ دیا جا سکے۔ ہمارے اداروں نے بھی اس امید کا اظہار کیا ہے کہ حالیہ پیش رفت سے ملک کے مذہبی بیانیے میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ مگر پھر بعد میں رفتہ رفتہ پیغام پاکستان میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ تمام مذہبی طبقات کو آن بورڈ لانے کے لئے کیا گیا ہے۔ اب پیغام پاکستان جارج اور ویل کا ناول مینفیسٹو آف اینمل فارم محسوس ہوتا ہے جس میں اینمل رجیم اپنے منشور میں تبدیلی کرتے کرتے پرانے منشور پر پہنچ جاتی ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مذہبی حلقوں کی قوت کو لگام دینا چاہتی ہے۔ مگر اس کے لئے کسی مناسب لائحہ عمل کی تلاش میں ہے۔ مذہبی گروہوں کو بھی ریاست کی کمزوریوں کا پوری طرح ادراک ہے اور وہ ان کمزوریوں سے نہایت مہارت سے استفادہ کر رہی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا موازنہ برما سے کیا جا سکتا ہے جہاں ملٹری جنتا نے بھکشوئوںسے گٹھ جوڑ کیا ان کو طاقتور کر کے اپوزیشن اوراقلیتوں کو دبانے کے لئے استعمال کیا ۔لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بدھ مت بھکشوئوں نے اپنی فوج اور سیاسی جماعتوں کو ہی بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ برما کی فوجی جنتا اب بھکشوئوں کی بے لگام قوت سے عاجز آ چکی ہے مگر ریاست کے امور ان کی مرضی سے طے کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان میں حالیہ مدارس کے بارے میں حکومتی بیانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حکومت اس بات پر قائل ہے کہ حکومت کی مدرسہ اصلاحات صرف مدارس کی رجسٹریشن تک ہی محدود ہو ں گی یا پھر مدارس کو وفاقی وزارت تعلیم کے تحت لایا جائے گااورعلماء امتحانات‘ نصاب اورمدارس کے انتظامی معاملات میں حکومت کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ دوسری طرف حکومت مدارس کے طلباء کو ڈگری جاری کرنے کے لئے مخصوص مضامین کا امتحان بھی لازمی کرنے جا رہی ہے۔ تاکہ مدارس کے طلباء کو بھی مین سٹریم میں لایا جا سکے۔ ریاست کی نرم گرم پالیسی نے ابھی تک مذہبی حلقوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کو چیلنج نہیں کیا‘ مذہبی منافرت پھیلانے والے مدرسوں کے تعلیمی بورڈ کا خاتمہ اس حوالے سے حکومت کا پہلا اقدام ہو گا۔ اسی طرح حکومت کو مدارس کی نگرانی کا موثر اور مربوط نظام بھی واضح کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں مسلم معاشرے اپنا معتدل اسلامی تشخص ابھارنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں تاکہ اسلام اور ماڈرن دنیامیں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ گو اسلامی معاشرے کی اپنی منفرد پہچان بھی ہے۔ پاکستان میں مذہبی حلقے دو وجوہات کی وجہ سے مضبوط ہوئے ہیں پہلی وجہ مذہبی علماء کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نیشنل ازم میں شراکت دار ہونا ہے۔ جس میں مذہبی حلقوں کو سیاسی اور جغرافیائی معاملات میں مداخلت کا موقع ملتاہے۔ دوسرے ریاست کا بائیں بازو کے حلقوں کو مذہبی جماعتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے ۔اسٹیبلشمنٹ اپنی پالیسی پر ازسر مرتب کر سکتی ہے تاکہ آنے والے وقت میں بڑے نقصان سے بچا جا سکے مگر شاید اسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ معتدل طبقات قوت میں آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھا سکتے ہیں اس لئے وہ مذہبی حلقوں کے ساتھ ہی مراسم رکھنا چاہتی ہے۔