نئے پاکستان میں نئی نئی باتیں ہو رہی ہیں، حکمران جماعت کے سابق ترجمان اور اب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری بہت فعال ہو گئے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ انھوں نے یہ کہہ کر ہیلی کاپٹر پر بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس اور واپسی بنی گالہ سفر سستا پڑتا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں اور بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے کہ ہیلی کاپٹر پر سفر سستا پڑتا ہے جبکہ اس رائے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ سکیورٹی تقاضوں اور روٹ لگنے سے شہریوں کو پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی سفر بہتر ہے۔ سیاسی طور پرتو کہا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف اورشہباز شریف کا سرکاری ہیلی کاپٹرز اور جہازوں پر سفر کرنا غلط تھا اور وی آئی پی کلچر کے زمر ے میں آ تا تھا تو اب خان صاحب کے معاملے میں ناخوب، خوب کیسے ہو گیا ؟۔ عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی وی آئی پی کلچر کی نفی کرتے ہوئے جن اقدامات کا اظہار کیا تھا ان میں اصولی طور پر ہیلی کاپٹر پر اتنا مختصر سفر ’فٹ اِن‘ نہیں ہوتا۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ بیورو کریٹس کی بنائی ہوئی ’بلیو بک‘ بڑی ظالم ہے اور حکمران اسے بدلنے کے بجائے اس کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ’بلیو بک‘ میں صدر، وزیراعظم ، وزراء کی سکیورٹی اور پروٹو کول کا طریقہ کار درج ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم عمران خان، ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دیں جو ’بلیو بک‘ میں درج قواعد وضوابط کا جا ئزہ لے اور سکیورٹی تقاضوں پر سمجھوتہ کیے بغیر اس میں اگر کوئی ردوبدل ہو سکتا ہے تو کر دیاجائے۔ ویسے خان صاحب اوردیگر صف اول کے سیاستدان کچھ نیا نہیں کررہے۔ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، آصف زرداری اوربلاول بھٹو سبھی وقتاً فوقتاً گھروں سے ہوائی اڈوں تک ہیلی کا پٹروں کے ذ ریعے ہی جاتے ہیں انتخابی مہم کے دوران بھی ہیلی کاپٹر اور جہازوں کا استعمال تو معمول بن چکاہے، دیگر سیاسی رہنما بھی ایسا ہی کرتے رہے۔ پاکستان میں اب ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو جدید ترین چھوٹے مسا فر جیٹ طیارے فی گھنٹے کے حساب سے کرائے پر دیتی ہیں۔ قابل افسوس بات تب ہوتی ہے جب حکمران خود، ان کے رشتہ دار اوردوست احباب اپنے آرام، نجی دوروں اور سیر وتفریح کے لیے سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کے نومنتخب وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی میاں چنوں اور پاکپتن کے دورے پر سرکاری ہیلی کاپٹر پر گئے۔ ان کے ترجمان کے مطابق ہیلی کاپٹرکا استعمال ان کا حق ہے۔ مستحکم اور جدید جمہوریتوں میں بھی حکمران نجی دوروں کے لیے سرکاری جہاز کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن وہ خزانے میں اس کا کرایہ بھی جمع کراتے ہیں۔ جیساکہ امریکی صدر اگر سیر سپاٹے پر جائے تو سرکاری خزانے میں استعمال کرنے کی لاگت بھی بھرتے ہیں۔ بدقسمتی سے وقت کے تقاضوں نے سیاست میں استعمال ہونے والے آمدورفت کے ذرائع کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1966ء میں بطور وزیرخارجہ ایوب خان کابینہ سے استعفیٰ دیا تو وہ بذریعہ ٹرین راولپنڈی سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے، انھوں نے راستے میں ہر سٹیشن پر عوام کے جم غفیر سے خطاب کیا۔ جب تک وہ کراچی پہنچے تو ان پر یہ بھید کھل چکا تھا کہ وہ اعلان تاشقند کی بنا پر ایوب خان سے اختلاف کرنے کی بنا پر عوام کی آنکھوں کا تارا بن چکے ہیں اور اب ایوب خان کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگا ہے۔ اگلے برس انھوں نے ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ یہ وہ دور تھا جب سیاستدانوں کی صوابدید پرنہ کروڑوں روپے کی بلٹ پروف لینڈ کروزر گاڑیاں تھیں نہ لمبے ڈالے اور نہ ہی سکیورٹی کے نام پر سینکڑوں اہلکار ہوتے تھے۔ اب سیاستدانوں کی کہی ہوئی باتیں اور وہ خود بھی ہوا میں ہی معلق رہنا پسند کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اچانک ایک نیا شوشہ چھوڑ اہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے ’’پیمرا‘‘ اور پریس کونسل آف پاکستان کو ختم کر کے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جارہی ہے جو نہ صرف الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا بلکہ سائبر میڈیا کو بھی دیکھے گی۔ نہ جانے فواد چودھری صاحب کو کس نے بریف کیا ہے کیونکہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرزایڈیٹرز(سی پی این ای) کا پانچویں مرتبہ صدر منتخب ہواہوں۔ طویل صحافتی کیریئر کے دوران آزادی صحافت کے حوالے سے خاصے مد وجزر دیکھے ہیں۔ ایوب خان کا بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس اخبارات کی آزادی سلب کرنے کے لیے بے محابہ استعمال ہوتا تھا۔ اس آرڈیننس کے تحت اخبارات کی بندش، اشاعت میں تعطل، جرمانے اور ضمانت طلب کرنا معمول ہوتا تھا۔ ہر حکومت سر کاری اشتہارات کو اخبارات کی پالیسی کی پاداش میں بند کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ بعض حکومتی اہلکار یہ بھی کہتے تھے کہ سرکاری اشتہارات ہماری مرضی پر منحصر ہیں کسی کو دیں یانہ دیں۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس اور دیگر کالے قوانین کے خلاف اخباری مالکان، ایڈیٹرزاور صحافتی تنظیموںنے طویل جدوجہد کی جو جنرل ضیاء الحق کی طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ آج اخبارات کی آزاد روی جس سے حکمران اکثر تنگ رہتے ہیں انہی صحافیوں، اخباری مالکان اور ایڈیٹروں کی جہد مسلسل کا نتیجہ ہے۔ ہماراہمیشہ استدلال رہا ہے کہ اخبارات مادرپدر آزاد نہیں ہونے چاہئیں ان پر ملکی قوانین کا پوری طرح اطلاق ہوناچا ہیے۔ خصوصی عدالتوں کے بجائے انھیں عام عدالتوں کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔ پریس کونسل بھی ایک سیلف ریگولیٹری ادارے کے طور پرصحافتی تنظیموں، اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اتفاق رائے سے معرض وجود میں آئی۔ تاہم وزیر اطلاعات کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ اس ادارے کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے اور ملکی خزانے پر بوجھ ہے۔ جہاں تک ’پیمرا‘ کا تعلق ہے اسے جنرل پرویزمشرف کے دور میں تشکیل دیا گیا تھا اور اس کو آزاد ریگولیٹری ادارے کے طور چلایا جانا تھا۔ اس کی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے پیمرا کو کیبنٹ ڈویژن کے تحت رکھا گیا تھا لیکن بعدازاں پیپلزپارٹی کے دور میں اسے وزارت اطلاعات کے ماتحت کردیا گیا اور نوبت بہ ایں جارسید کہ میاں نواز شریف نے اپنے ایک منظور نظر صحافی جواس منصب کے اہل بھی نہیںتھے کی خاطر پری کوالیفکیشن بدل کر اسے ادارے کا چیئرمین بنا دیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر پیمرا کوحکمرانوں کا آلہ کار بنا دیا گیا تھا تو اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ’پیمرا‘ کو جیساکہ دیگر جمہوری ملکوں میں بھی ایسے ادارے موجود ہیںسیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر چلانے کے لیے اس کے چارٹر میںردوبدل کیا جائے اور اسے حقیقی معنوں میں ریگولیٹری ادارہ بنایا جا ئے۔ امید واثق ہے کہ فواد چودھری صاحب ایسے ’’انقلابی اقدامات‘‘ کر نے سے پہلے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں گے۔ ویسے بھی مجھے امید تھی کہ عمران خان خود ملک میں میڈیا کی آزادی کا ببانگ دہل اعلان کریں گے اور اس وقت بعض میڈیا ہاؤسز کو اخبارات کی ترسیل، تقسیم اور دباؤ کے بارے میں جو شکایات ہیں انھیں دور کریں گے۔ وزیر اطلاعات نے سرکاری اشتہارات کی تقسیم کے بارے میں بھی کچھ ارشادات فرمائے ہیں۔ سینیٹ میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں وفاق نے17ارب روپے کے سرکاری اشتہارات جاری کیے اگر پنجاب کے اشتہارات کو بھی شامل کیا جائے تو یہ رقم 40ارب روپے ہے ۔یہ اشتہارات اپنی تشہیر کے شوق میں جا ری کیے گئے یعنی سا بق ادوار بالخصوص گزشتہ دور میں بعض مخصوص میڈیا گروپوں کی جھولیاں بھری گئی ہیں۔ سرکاری اشتہارات کسی کی جیب سے نہیں جاتے لیکن اس کی تقسیم منصفانہ اور میرٹ پر ہونی چاہیے اور اخبارات کی پالیسی پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال نہیںہونے چاہیے۔