بانی ایم کیوایم کے سابقہ دیرینہ ساتھی محمد انور نے بھی ان پر دشمن ملک بھارت کے جاسوس ادارے ’’را‘‘سے رابطوں کا الزام لگا دیا۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ تہلکہ خیز انکشاف نیا نہیں ہے۔ 90ء کی دہائی کے اوائل سے ہی اس قسم کے الزامات بانی ایم کیو ایم اور اْس زمانے کی مہاجر اور حال کی متحدہ قومی موومنٹ کا پیچھا کر رہے ہیں۔ بانی ایم کیوایم پر کراچی میں دہشتگردی و تشدد کی سرپرستی اور’’را‘‘ کے ساتھ مبینہ رابطوں کا الزام لگانے کا پہلا سہرا آفاق احمد اور عامرخان کو جاتا ہے جو ایم کیو ایم کے عروج کے دنوں میں خم ٹھونک کر ’’پیر صاحب‘‘کے خلاف میدان میں اترے اور سکیورٹی اداروں کی مدد سے عارضی طور پر ہی سہی، کم از کم ان کا سیاسی بوریا بستر لپیٹ دینے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن 1992ء کے آپریشن کے آغاز سے پہلے ہی بانی ایم کیوایم لندن ہجرت کرچکے تھے اور آفاق احمد اور عامرخان کی قیادت میں ایم کیو ایم حقیقی جب میدان میں اتری تو اپنے مخالف مرکزی دھڑے کی شدید مشکلات کے باوجود بھی شہری سندھ کی انتخابی سیاست میں جگہ نہ بنا سکی۔ یہ اور بات ہے کہ کراچی کے آپریشن ’’کلین-اپ ‘‘کے دنوں میں مبینہ جناح پور کے نقشے بھی نکلے اور ایم کیو ایم پر ہر طرح کے الزامات بھی لگے۔ محمد انور کے ’’قائد تحریک ‘‘کے بارے میں حالیہ انکشافات کو ماضی میں لگائے گئے الزامات کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے جن پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے۔ بقول ایک سابق رہنما ایم کیوایم پہلے پہل بانی ایم کیوایم نے بھارت کے ساتھ رابطہ کروانے کی فرمائش اپنے وقت کے معروف شاعر و دانشور رئیس امروہوی سے کی جنہیں 80ء کی دہائی میں کراچی میں واقع بھارتی ڈپٹی ہائی کمیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مشہور یہ تھا کہ اگر امروہوی صاحب سگریٹ کی خالی ڈبیہ پر بھی کسی کے لیے بھارتی ویزے کی سفارش لکھ دیتے تو اس کی مراد پوری ہوجاتی۔ ایم کیو ایم کو قائم ہوئے اس وقت تین، چار برس ہی ہوئے تھے اور اس زمانے کے اردو بولنے والے کئی دانشور ایم کیوایم کی پشت بانی بھی کرتے اور بانی ایم کیوایم کا ہاتھ پکڑ کے چلانے کی کوشش بھی۔ انہی میں امروہوی صاحب بھی تھے۔ لیکن بقول راوی، بھارتی ڈپٹی ہائی کمیشن میں عزت ہونا ایک بات ہے اور ’’را‘‘سے رابطہ کروانا دوسری۔ امروہوی صاحب نے بانی ایم کیوایم کی فرمائش ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی۔ لیکن بانی ایم کیوایم کہاں ہار ماننے والے تھے۔ انھوں نے دوسری بار اصرار کیا اور پھر تیسری جس پر امروہوی صاحب نے ’’مہاجر بزرگ اختر رضوی‘‘سے کہا کر ’’لڑکا بگڑ رہا ہے، اسے سمجھائو۔‘‘اختر رضوی بھی ، جن کی شناخت کبھی بائیں بازو کی سیاست تھی، ایم کیوایم کے سرپرستوں میں سے تھے۔ بقول راوی اختر رضوی نے اپنے تیئں الطاف حسین کو سمجھایا۔ کچھ دنوں کے بعد، ستمبر 1988 ء میں، رئیس امروہوی قتل کردئیے جاتے ہیں اور اختر رضوی ہبڑدبڑ میں جان بچانے کے لیے شہر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔بانی ایم کیوایم کی ’’را‘‘سے رابطوں کی مبینہ خواہش پہلی بار کب اور کیسے پوری ہوئی، اس اسرار سے ابھی پردہ اٹھنا ہے۔ نواز شریف دور میں شروع کیے گئے 1992ء کے آپریشن نے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں دوبارہ زور پکڑا۔ کراچی کے کئی صحافیوں کو حساس اداروں، پولیس اور حکومت کی طرف سے دی جانے والی ’’بریفنگز‘‘آج بھی یاد ہیں جن میں جناح پور کے نقشے دکھائے جاتے اور ایم کیوایم پر دیگر الزامات لگتے۔ اسی دور میں کراچی میں لاشیں گرنے کا عمل پھر تیز ہوا جس کے بنیادوں کرداروں اور متاثرین میں لسانی عسکریت پسند، پولیس، سکیورٹی ادارے سب ہی شامل تھے۔ پرقسمت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ پرویز مشرف کے دور میں ایم کیوایم پر لگائی گئی سیاہی کو دھو دھا کر صاف کیا گیا تاکہ وہ دوبارہ مرکزی دھارے کی سیاست اور حکومت میں شامل ہو سکے۔ اسی دور میںبانی ایم کیوایم نے بھارت کی یاترا کی اور وہاں متنازعہ تقریر بھی کی لیکن اس پر ریاست کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سب ویسا ہی چلتا رہا۔ ایم کیوایم پیپلز پارٹی کے تیسرے دورحکومت میں بھی حصہ دار تھی اور بانی ایم کیوایم کراچی و حیدرآباد پر لندن سے بیٹھ کر راج کرتے رہے۔ شہری سندھ کے مسائل تو حل نہ ہوتے، لیکن جب کبھی بانی ایم کیوایم حکومت سے روٹھتے، اس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک انھیں دوڑ کر منا لیتے۔ پر برے دنوں کی طرح اچھے دن بھی ہمیشہ نہیں رہتے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے عسکریت پسندوں کے درمیان کراچی میں غلبے کے حصول اور بھتہ اکٹھاکرنے کے معاملے پر آپس میں ٹھن گئی۔ شہر میں قتل و غارت گری کا نیا باب شروع ہوا جس نے انگنت افراد ، بشمول عام شہریوں، کو نگل لیا۔ اس وقت سے ہی ایم کیوایم کے لیے معاملات سرد وگرم چل رہے ہیں۔ 2015ء نوازشریف کے تیسرے دورحکومت میں ایم کیوایم پھر آپریشن کی زد میں آتی ہے، لیکن یہ آپریشن 1992ء جیسا نہ تھا۔ نئے آپریشن میں ایم کیو ایم کی سیاسی قیادت بددستور فعال رہی، لیکن کارکنوں پر پڑنے والے دبائو کی آنچ لندن تک محسوس کی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور خرابی صحت کے باعث بانی ایم کیوایم بھی اپنے ساتھیوں کے لیے مشکل شخصیت بن گئے۔ وہ ترنگ میں کچھ بھی کہہ جاتے، جسے سنبھالنا ایم کیوایم کے پاکستان میں موجود رہنماوں کے ذمہ داری بن جاتا۔ یہی نہیں، مقامی رہنمائوں سے ڈانٹ ڈپٹ اور کارکنوں کے ذریعے ان سے زور زبردستی کے معاملات الگ تھے۔ ان حالات میں بانی ایم کیوایم سے اگست 22، 2016 ء کی متنازعہ، پاکستان مخالف تقریر سرزد ہو جاتی ہے ۔ پھر بھی پاکستان میں ایم کیوایم کی ماضی و حال کے رہنماوں سے بانی ایم کیوایم کے ’’را‘‘سے مبینہ تعالقات پر بات کریں تو سب ہی بے خبری کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، جو کہ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ صرف مصطفی کمال اور ان کی پاک سرزمین پارٹی ہی بانی ایم کیوایم کے خلاف شمشیر برہنہ بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک ایم کیوایم پاکستان کے موجودوہ اور سابقہ رہنمائوںکا سوال ہے، ان کی جانب سے بانی ایم کیوایم کے معاملے پر باادب خاموشی ہی ہے۔