پنجاب حکومت کی طرف سے یونیسیف کو پیش کرنے کے لئے سالانہ کارکردگی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ کی 57 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور قریباً 6 کروڑ 27 لاکھ سے زائد افراد کو صاف پانی کی فراہمی کے لئے تاحال منصوبہ بندی کا فقدان ہے جبکہ صوبہ میں صرف 32 فیصد آبادی کو صفائی کی مناسب سہولیات میسر ہیں۔ زمینی حقائق یہی ہیں کہ صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے ہم قابل رشک ریکارڈ نہیں رکھتے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پانی کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ کا درجہ 3 ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق 2025ء میں پانی کی قلت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔ ہمارے لئے اس وقت صاف پانی کی فراہمی کے لئے نہ صرف پہلے سے مقررہ اہداف کا حصول ضروری ہے بلکہ مستقبل کے لئے نئی منصوبہ بندی بھی ناگزیر ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی اوروفاقی سطح پر اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ نئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں اور اس سلسلے میں میڈیا کا بطور خاص استعمال کیا جائے۔ حکومت ترقیاتی منصوبوں میں پانی کے مسئلے کو اولین ترجیح بنائے اور آئندہ وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں پانی کو ضائع ہونے سے بچانے، نئے آبی ذخائر بنانے، زیرزمین پانی سے آلودگی ختم کرنے، نئی واٹر پائپ لائنز بچھانے کے لئے بھاری رقوم مختص کرے تاکہ آئندہ پانچ برس میں متوقع آبی بحران کو روکنے کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔