وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے (فیض احمد فیض) عمران خان کا تازہ ترین انٹرویو‘ ہمارا آج کا موضوع ہے‘ ایک گھنٹے سے زیادہ دورانیے کے انٹرویو میں سے سات آٹھ منٹ پر محیط سوال و جواب کا ضروری حصہ ایک دفعہ پھر سے پڑھ لیجیے! بعد میں اس پر اپنی بات کریں گے‘ عمران خاں کو انتخاب چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا‘ اگر پاکستان کو نیچے جانے سے روکنا ہے تو نئے الیکشن کے سوا کوئی راستہ نہیں‘ 10اپریل سے آج تک جب سے یہ لوگ اقتدار میں آئے کوئی ایک چیز صرف ایک بتا دیں جس میں بہتری آئی یا پہلے کے مقابلے میں اچھی ہو گئی ہو؟ سوال‘ آج جب آپ سے بات کر رہا ہوں یہ ستمبر کی بارہ(12) تاریخ ہے‘ اب اگر الیکشن کا اعلان کر بھی دیا جائے‘ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے انتخابات شروع ہو جائیں تب بھی دسمبر میں انتخابات ممکن ہو سکیں گے‘ نومبر کے آخر میں فوج کے سربراہ کی تقرری ہو گی‘ اس بارے میں آپ کے ایک بیان سے بڑا تنازعہ شروع ہو گیا تھا۔آئین میں یہ تو طے ہے کہ اس وقت جو بھی حکومت ہو گی وہ فوج کے سربراہ کا فیصلہ کر دے گی‘ اس کے بعد نیا دور شروع ہو جائے گا‘ ظاہر ہے کہ اس وقت جو لیفٹیننٹ جنرل ہیں انہی میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ ہو گا‘ مجھے آپ صرف یہ بتائیے کہ آپ نے کچھ دن پہلے بیان دیا تھا کہ یہ حکومت کا کام ہے‘ جس کو بنائے یہ میرا کام نہیں ہے‘ وہ کسی کو بنائیں نہ بنائیں کسی کو توسیع (ایکسٹینشن) دیں نہ دیں‘ بہت ہی نرم لہجے میں آپ نے بات کی تھی لیکن کچھ دنوں کے بعد آپ نے بڑی متنازعہ بات کہہ دی‘ جس میں ایک یہ بات ہو گئی کہ میرٹ پر کون ہے‘ محب وطن کون ہے‘ اب تو یوں لگتا ہے‘ یہی حکومت ہے جس کو چاہے گی فوج کا سربراہ مقرر کر دے گی‘ ظاہر ہے کہ بنانا چاہیے جو بھی سینئر جنرلز ہیں‘ جیسے پہلے بنا کرتے تھے ویسے ہی اب بھی بن جائیں گے؟ جواب‘ کامران دیکھیں‘ میں سب سے پہلے پھر سے دہرائے دیتا ہوں‘ دنیا میں صرف وہی قومیں ترقی کرتے ہوئے اوپر جاتی ہیں‘ جن میں اہل اور حق دار میرٹ پر لئے جاتے ہیں‘ میرٹ ایک اصول کی طرح رائج ہے‘کرکٹ میں وہی ٹیمیں اوپر جاتی ہیں جن میں میرٹ کا خیال رکھا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔دنیا میں کسی بھی ادارے کو اگر کامیاب ہونا ہے تو اس میں میرٹ کا خیال رکھنا پہلی شرط ہے۔اگر آج آپ دنیا کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں تو دنیا میں جو قومیں ترقی یافتہ ہیں یا ترقی کرتی جا رہی ہیں تو ان میں میرٹ کا نظام ان کے مقابلے میں بہت بہتر نظر آئے گا، ان قوموں کے مقابلے میں جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہونگی، ان میں سفارش چلتی ہے‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی کی جاتی ہے‘ ہمارے قائد اعظم نے 1947ء میں بات کی تھی۔اگر معاشرے میں میرٹ نہیں ہے تو وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا‘اس کے مقابلے میں جہاں اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔آج اگر چین کی ترقی دیکھیں‘میں جب چین گیا تھا تو انہوں نے مجھے اپنے نظام کے بارے میں بتایا‘ کمیونسٹ پارٹی کا طریقہ کار سمجھایا‘ چائنہ کی تیزی سے ترقی کا اصول ہے وہ سب سے بہترین اور اہل شخص کو کام سونپ دیتے ہیں۔ میں نے کیا کہا تھا؟میں نے کہا تھا فوج کے سربراہ کی پوزیشن بہت ہی اہم اور ذمہ داری کی ہے‘ اس کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہیے‘ میں بار بار کہوں گا، اس کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے‘ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہوں گا کہ نہ تو آصف علی زرداری کوالیفائیڈ(اہل) ہے نہ نواز شریف اس کا اہل ہے کہ وہ اس اہم ترین منصب کے لئے فیصلہ کریں‘ قانون کو چکمہ دے کر بھاگا ہوا اور سزا یافتہ جس کی ساری دولت اور مفادات باہر دوسرے ملکوں میں ہیں‘ملک میں بیرونی سازش کے ساتھ جرائم پیشہ لوگوں کو حکمرانی کے لئے مسلط کیا گیا‘ آصف زرداری 30سال سے پاکستان کو لوٹ رہا ہے‘ ساری دنیا میں اس پر مضامین لکھے گئے‘ ایک دھوم مچی ہے اس کی لوٹ مار کی، ان کے لئے میرٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ان کے لئے میرٹ اپنی چوری سے بنائی گئی دولت کا تحفظ ہی میرٹ ہے ہر حال میں انہیں اپنا پیسہ بچانا ہے‘ لوٹ مار کا پیسہ‘ یہ جو بھی قدم اٹھائیں گے ان کی الگ ہی سوچ ہوتی ہے کہ ان کی دولت قانون کی گرفت اور اداروں کی نظر سے بچی رہے۔ یہ میری حکومت گرا کے اوپر آن بیٹھے تھے‘ یہ پاکستان کی بہتری میں نہیں تھا‘ انہیں اپنی چوری بچانی ہے پہلے ہی این آر او لے کر گیارہ سو ارب روپیہ بچا لے گئے‘ میں بنیادی طور پر یہ کہہ رہا ہوں کہ میرٹ پر فوج کے سربراہ کی سلیکشن ہونی چاہیے اور سلیکشن کرنے والے خود بھی تو ایسا کرنے کے لئے اہل تو ہوں وہ خود بھی تو فیصلے کرنے کے لئے کسی میرٹ پر ہوں‘ اسی لئے کہتا ہوں کہ صاف شفاف الیکشن ہوں کوئی چور دروازے سے نہ آئے‘ بیرونی ملکوں کی سازش سے نہیں‘ آپ دیکھ لیں مسلم لیگ کی صرف 85سیٹیں ہیں قومی اسمبلی میں اور تحریک انصاف کی 155ہیں‘ یہ سازش کر کے اقتدار میں آئے‘ 85 سیٹوں والے کا 155کے مقابلے میں میرٹ کس طرح بن گیا کہ وہ اہم ترین قومی فیصلوں کا حق دار بن جائے۔ ملک سے باہر بیٹھ کرایک مفرور‘ دوسرا مجرم قوم کی قسمت کے فیصلے کریں‘ ہاں اگر یہ لوگ صاف شفاف الیکشن میں جیت جاتے ہیں اور عوام سب کچھ کے باوجود ان پر بھروسہ کرتے ہیں تو انہیں فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ سوال‘صاف شفاف الیکشن یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘ وہ تو 90جن کے بعد ہونگے تو کس طرح فیصلہ اس سے پہلے ہو سکے گا‘ اس سے پہلے ہی مدت ملازمت ختم ہو چکی ہو گی تو پھر کیا ہو؟ جس دن جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں تو اس دن کیا کیا جائے؟ جواب۔اس کا حل نکل سکتا ہے کوئی بڑی بات نہیں ہے‘ وکیلوں نے مجھے بتایا ہے کہ اس کا قانونی حل نکل سکتا ہے کہ جب منتخب حکومت آئے تو وہ فیصلہ کر سکتی ہے۔سوال‘ تو کیا اس وقت تک کے لئے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن (توسیع) دے دی جائے؟ جواب‘ کامران میں نے اس بارے میں زیادہ تفصیل سے نہیں سوچا‘ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ان مجرموں کو فیصلہ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔سوال لیکن اس وقت تک کیا ہو گا؟ سیلاب کی صورت حال‘ معاشی حالات‘ غیر یقینی ہر طرف پھیل رہی ہے تو الیکشن کیسے ہوں؟ ہوں تو اس اہم تقرری کا مسئلہ تو پہلے آ جائے گا‘ اس وقت تک نیا آرمی چیف آنا بہت ضروری ہے‘ اسے کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے‘ آئین اور قانون صاف اور واضح بات کہتے ہیں کہ حکومت وقت بتائے کہ کس کو فوج کا سربراہ مقرر کرنا ہے‘ جیسے اب تک بنتے رہے ہیں‘ کیا آپ کے پاس اس الگ کوئی فارمولا ہے؟ تو وہ صاف صاف بتائیے کہ یہ طریقہ ہے‘ اس طرح کر لو؟ مجھے یوں لگا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ نئی حکومت آنے تک جنرل باجوہ کی سربراہی چلتی رہے‘ جب نئی حکومت آئے تو وہ نئے سربراہ کا فیصلہ کرے؟اس وقت تک باجوہ ہی سربراہ رہیں؟کیا آپ یہی کہنا چاہ رہے ہیں؟ جواب‘ دیکھیے قانونی ماہرین کیا رائے دیتے ہیں‘ فی الوقت سیلاب کے ساتھ مل کر یہ مسائل زیادہ پریشان کن ہو گئے ہیں۔ درج بالا طویل اقتباس عمران خاں کے انٹرویو کا وہ حصہ ہے‘ جس میں سو سو جتن کر کے گھیر گھار کے لفظوں کا جال بن کے‘ خاں کے منہ میں اپنے لفظ ڈال کے تھوڑی مدت کے لئے ہی سہی کم از کم انتخابات کے نتائج تک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے عمران خاں سے کچھ کہلوایا جائے لیکن اس نے کسی طرح اس خیال کی تائید نہیں کی‘ اس کے باوجود کارٹون بن گئے‘ فوجی بوٹ کے ساتھ عمران خاں گھسٹتے چلے جا رہے ہیں‘ تبصرے ہوئے‘ خبریں چلیں‘ مضامین لکھے گئے‘ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے ترجمانوں سمیت کسی نے بھی خاں کا انٹرویو براہ راست نہیں سنا اور گھڑی گھڑائی خبروں کو پڑھ سن کر اس کی تائید کرنے لگے حتیٰ کہ اسد عمر صاحب بھی بغیر پڑھے یا خاں سے پوچھے بغیر ٹی وی پر وہی سب کہہ گئے‘ جو عمران نے نہیں کہا بلکہ نہ صرف اس سے دان بچایا بلکہ اس کی یہ کہہ کر نفی کر دی کہ ’’وکلاء نے مجھے بتایا ہے کہ اس کی قانون میں پروویژن نکل سکتی ہے‘ نہ صرف نکل سکتی ہے بلکہ پہلے سے موجود ہے‘ اس کی نظیر بھی۔ قارئین محترم! آئین اور قانون میں واضح تصریح کے علاوہ ہنگامی اور فوری ضروریات سے نمٹنے کے لئے ایک خود کار نظام موجود رہتا ہے‘ قانونی طریق کار پر عمل درآمد تک بھی جگہ خالی نہیں رہتی۔ آپ کو یاد ہو گا‘ فوج کے سپہ سالار جنرل آصف نواز اچانک وفات پا گئے تو جنرل اشرف کور کمانڈر لاہور قائم مقام آرمی چیف بن گئے تھے‘ وہ سب سے سینئر کور کمانڈر تھے‘ اسی استحقاق سے انہوں نے عارضی کمانڈ سنبھالی تھی‘ حالانکہ ان سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل موجود تھے لیکن اس طرح کی ہنگامی اور فوری کمانڈ سب سے سینئر کور کمانڈر کو منتقل ہوتی ہے‘ جنرل اشرف اس وقت تک کمانڈ سنبھالے رہے تھے جب تک کہ آئین کی منشا کے مطابق صدر پاکستان غلام اسحق خاں نے جنرل عبدالوحید کاکٹر کو سپہ سالار مقرر نہیں کر دیا تھا۔یہ طریقہ کار آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہے اور کسی ہنگامی صورت میں لاگو ہو جائے گا۔