مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو وہی جو حافظ نے کہا تھا کہ عشق اول اول تو آسان لگتا ہے مگر یہ ہے تو جان لیوا ہے کہ یہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘کہ جگر کا وی جگر نے ایسے ہی نہیں کی۔ اقبال نے تو قلم ہی توڑ دیا کہ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔ مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔ میں اتنا اونچا نہیں اڑوں گا کہ پر جل جائیں۔ ایک ہندو نے بھی تو کہا تھا کہ ’’عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں۔صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں‘‘۔ یہ تمہید سی بن گئی ہے کہ مجھے پی ٹی وی کی یادوں کا تذکرہ کرنا تھا کہ طارق عزیز پر لکھے گئے کالم پر بے طرح رسپانس آیا کہ لوگوں کا سنہر دور یاد آ گیا کہ کبھی پی ٹی وی کے شب و روز جگمگاتے تھے۔ اب تو چیلنجز کی بھر مار ہے تب تو صرف پی ٹی وی تھا اور پھر کیسے نابغے اس میں کام کر رہے تھے ایک سے بڑھ کر ایک‘ ہم تو کسی قطار شمار میں ہی نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرا لکھا ہوا سیریل شناور لائن میں آیا تو پتہ چلا کہ اس کی جگہ پہلے اشفاق احمد کا ایک سیریل قندر مکرر کے طور پر چلے گا۔ ظاہر ہے میں اس سے بددل ہو گیا اور واپس شاعری کی طرف پلٹ گیا۔ غالب نے تو کہا تھا: سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے منیر نیازی نے کمال سادگی کے ساتھ ایک لفظ بدل کر شعر اپنے نام کر لیا اور کہا: سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعہ عزت ہوئی مجھے تو صاحبو!ہم بھی پیری فقیری میں آئے کہ واصف علی واصف یا وجیہہ السماء عرفانی جیسا کوئی سلسلہ ہمارا بھی تھا۔ مگر میرے دادا حضور نے بھی اس طریقت کو ترک کیا اور شاعری میں حمد و نعت کے پھول کھلائے۔ والد مکرم بھی اسی راستے کے مسافر تھے۔ میں مگر شوبز گزیدہ تھا۔ اس طرف دوڑتا گیا۔ تو بات ہو رہی تھی پی ٹی وی کی یادوں کی۔سارا دن ٹی وی سٹیشن ہی میں گزرتا تھا۔ پروڈیوسر طارق جمیل تازہ تازہ کراچی سے ایک بڑا سیریل لانچ کر کے آئے تھے اور مجھے پروگرام منیجر نے ان کے سپرد کر دیا۔ طارق جمیل ہوائوں میں تھے مگر وہ سراپا آرٹسٹ۔ کہنے لگے ہاں جی تعارف کروائیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھ گئے اور مجھے صوفے پر بٹھا دیا۔ فنکار ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کہنے لگے میں نے آپ میں سے ڈرامہ نکالنا ہے۔ جی تعارف‘ میں نے کہا میں تو zeroیعنی صفر ہوں۔ آپ ایک لگا دیں گے تو دس ہو جائوں گا۔ ایک خوشگوار مسکراہٹ کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور پروگرام منیجر بختیار صاحب کے پاس لے گئے اور کہا کہ وہ میرے ساتھ سیریل کریں گے: عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں اس کے بعد طارق جمیل صاحب نے میرے گھر پر آنا شروع کر دیا اور ہم رات گئے تک ڈائیلاگ ڈسکس کرتے تھے۔ خوب گپ شپ ہوئی۔ وہ سرفراز شاہ صاحب سے متاثر تھے اور شاہ صاحب میرے پڑوس میں اقبال ٹائون ستلج بلاک میں تھے۔ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ کہ تربیت یافتہ پروڈیوسر کام کیسے کرتے تھے۔ سیریل شیڈ ول ہو کر بھی تعطل کا شکار ہوا تھا۔ میں سدا کا زود رنج سب کچھ چھوڑ گیا۔ نوائے وقت میں کالم لکھ رہا تھا تو ایک پروگرام میں طارق جمیل صاحب آئے تو کہنے لگے اچھا کیا کہ سعداللہ شاہ چھوٹے ڈرامے میں سے نکل کر بڑے ڈرامے میں آ گیا کہ کالم نگار ہو گیا۔ سب قہقہہ بار ہو گئے۔ ایسا نہیں کہ میں نے ڈرامے نہیں لکھے۔ تصویر بیگم سیریز میں میں نے چار ڈرامے لکھے اور ایک دو پنجابی ڈرامے۔ میں ڈرامے کا آدمی نہیں تھا۔ تاہم میں نے جو ڈائیلاگ لکھے وہ سارے شاعرانہ تھے۔ میں نے ڈاکومنٹریز بھی شاعرانہ ہی لکھی تھیں اور بختیار صاحب نے ڈاکومنٹریز میں مجھے فری ہینڈ دے دیا۔ انہیں بہاولپور اور ملتان کی میری لکھی ہوئی ڈاکومنٹریز بہت پسند آئیں اور پھر میکسم صاحب نے مجھے 1992ء کا سب سے اچھا ڈاکومنٹری رائٹرقرار دیا۔ بس ایسی ہی یادوں کے انبار ہیں۔ وقت گزر گیا تب تو ہم ریڈیو میں پائے جاتے تھے یا پی ٹی وی میں۔ ایک جنوں ہی تو تھا کام کرنے۔ ادھر گیت لکھے جا رہے ہیں ادھر ان کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ کینٹین پر ہم سب اکٹھے مل بیٹھتے ہیں۔ ادھر حامد علی خاں آ گئے ادھر سے کوئی اور دوست اور پھر جگتیں اور فقرے بازی۔ لوگوں میں محبت تھی ایک دوسرے کے پروگرامز دیکھے جاتے۔ ان پر گفتگو ہوئی کیلی گرافی کے کمرے میں جہاں سلام شاد‘ غلام رسول اور انجم جیسے بڑے خطاط موجود ہوتے تو ہم سب اکٹھے ہو جاتے کچھ کھانا پینا اکٹھا ہوتا۔ اسے ہم لوگ ٹانکا کہتے تھے۔ کئی چھوٹے چھوٹے رول کرنے والے بھی یہاں آ جاتے۔ انہیں کو پھر بڑے رول کرتے بھی دیکھا۔ تب کام کرنا اور کام لینا بھی ایک اچھے انداز کے ساتھ ہوتا تھا۔ایک اپنائیت جب آنگن آنگن تارے۔ بچوں کا پروگرام لاہور سٹیشن کو ملا تو آغا ذوالفقار خان پروڈیوسر تھے۔ علی اکبر عباس سے مشورہ کر کے انہوں نے مجھے ایوب خاور کے کمرے میں بند کر دیا اور کہا کہ ٹائٹل سانگ فوراً لکھو۔ وگرنہ یہیں قید رہو۔ ہائے ہائے کیسے دن تھے میں ہنستا رہا اور پریشان بھی کہ عجب امتحان ہے پھر وہی ہوا کہ مرتا کیا نہ کرتا مکھڑا لکھا اور آزادی پائی۔ مکھڑا تھا۔ ہم ہیں پھولوں جیسے بچے ہم ہیں سب کو پیارے اپنے دم سے گھر ہیں روشن ہم ہیں آنگن تارے آنگن آنگن تارے