جنرل ضیاء کے تاریک ترین مارشل لاء دور میں جب ایک طرف پروفیسر وارث میر اردو اخبارات میں اپنی فکر انگیز تحریروں کے ذریعے عوام کے لئے امیدوں کے دیے جلا رہے تھے تو دوسری طرف معروف لکھاری احمد بشیر روزنامہ ڈان میں بلھے شاہ کے فرضی نام سے لکھے جانے والے اپنے کالم میں بین السطور ضیاء جنتا کا عوام دشمن ایجنڈا بے نقاب کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن پھر اچانک ایک روز وارث میر اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ احمد بشیر نے اپنے دوست کی یاد میں ڈان میں بلھے شاہ کے نام سے جو کالم لکھا اسکا عنوان تھا "ہی ڈائیڈ ود ہز بوٹس آن"۔ یعنی "وہ آخری دم تک لڑتے لڑتے مارا گیا"۔ احمد بشیر نے لکھا کہ میرے دوست وارث میر کا خمیر عوام میں سے اٹھا تھا اور اسی لیے جب اس درویش کا جنازہ اٹھایا گیا تو وہ لاہور میں فیض احمد فیض کے بعد سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں اسے کے نظریاتی دشمن بھی اسے کاندھا دینے آئے تھے کیونکہ وہ بھی وارث میر کے باطن کی صفائی کو تسلیم کرتے تھے اور اس کی حق گوئی اور جرات سے مر عوب تھے۔ پروفیسر وارث میر کو ہم سے بچھڑے کئی عشرے بیت گے مگر آج بھی ان کی پر مغز اور فکر انگیز تحریوں کا مطالعہ کریں تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے جن بھی موضوعات پر لکھا وہ آج بھی تازہ ہی لگتے ہیں حالانکہ انکے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے ، کیبل تھی، نہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، فیس بک تھی نہ یو ٹیوب ، موبائل فون تھا نہ گوگل کا نام و نشان، بس چند ایک اخبارات تھے یا پھر ہر وقت حکومتی مدح سرائی کرتا ہوا سرکاری ٹیلی وڑن اور ریڈیو۔ اس دور میں آزاد اخبارات پر سخت ترین سنسر شپ عائد تھی کیونکہ ایک فوجی آمر ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض تھا۔ سیاسی کارکنوں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں ، آئین معطل تھا، جمہوری سرگرمیوں پر پابندی تھی، سچ لکھنے والے صحافیوں کیلئے تازیانے تھے ، اور بعض کو اس دور میں باقاعدہ کوڑے مارے گئے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے حواری صحافیوں کو پالنے کا عمل بھی جاری تھا۔ مذہبی انتہا پسند اور دین اسلام کے نام پر سیاست کرنے والی ایک اسلامی جماعت ان دنوں ضیاء کی ناجائز حکومت کی اندھا دھند حمایت کر رہی تھی اور سرکاری سرپرستی میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا تھا۔ اسلام کے نام پر ملائیت کو فروغ دیا جارہا تھا اور ہر نئی سوچ اور فکر کو مغرب زدگی کا نام دے کر کچلا جارہاتھا، جنرل ضیاالحق اس سب کے عوض مولویوں سے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے حمایت حاصل کررہا تھا۔ پروفیسر وارث میر نے ان مشکل ترین حالات میں بڑی جرات مندی کے ساتھ ضیاء کے اسلامائزیشن کے عمل کی مخالفت کی اور اسلام کے نام پر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوششوں کو بے نقاب کیا، انہوں نے اسلام کی سرکاری تعبیر کے ذریعے عورتوں کے حقوق غصب کرنے کی حکومتی کوششوں کی مخالفت کی۔ وارث میر نے جذباتیت کے بجائے سنجیدہ علمی انداز میں عورتوں کے حقوق کا مقدمہ لڑا ، اسلامی تعلیمات کے عمیق مطالعہ اور تحقیق کے بعد اپنا طویل مضامین کا سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات کے بعد "کیا عورت آدھی ہے؟’’ کے عنوان سے کتابی شکل میں چھپا۔ وارث میر نے اقلیتوں کے حقوق، انسانی حقوق، جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے حق میں اپنا قلم نشتر کی طرح چلایا، نام نہاد شریعت بل کی پوری شدت سے مخالفت کی ، اس سے پہلے کے ماشل لا کے اقدامات اور جمہوری ادوار کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو بھی انہوں نے موضوع تنقید بنایا۔ ایک سچا اور کھرا دانشور اپنے عہد سے جڑا ہوتا ہے۔ وہ عصری مسائل پر بات کرتا اور بہتر مستقبل کے لئے عوام الناس کی فکری رہنمائی کرتا ہے، وہ آج کے حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل میں جھانک لیتا ہے اور اس کی خبر دیتا ہے ، پروفیسر وارث نے اپنے عہد میں آئیں شکن ضیاالحق اور ان کے پروردہ مذہبی حلقوں کی پھیلائی ہوئی تنگ نظری اور جہالت کو موضوع بنایا اور بتایا کہ یہ ایک جدید اور صحت مند معاشرے کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ بعد ازاں ان کی کئی پشین گوئیاں یوں درست ثابت ہوئیں کہ ضیا دور میں پھیلائی گئی مذہبی انتہا پسندی، فکری تنگ نظری اور شدت پسندی بعد میں انتہا پسندی اور پھر دہشت گردی میں بدل گئی جس نے پاکستان کے چپے چپے کو لہو رنگ کردیا۔ وارث میر اپنے عہد میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مارشل لا اور اس کے حواریوں کے ساتھ قلمی اور علمی محاذ پر برسر پیکار رہے۔ وارث میر مسلمانوں پر جدید سائنسی علوم کے حصول کے لیے زور دینے کے علاوہ اپنے معاملات میں سائنسی اور عقلی انداز فکر اپنانے پر زور دیتے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ "سوچنا ، سوال کرنا، شک کرنا اور انکار کرنا علم ومعرفت کی پہلی سیڑھی ہے"۔ پروفیسر وارث میر ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک، ایک استاد ، ایک صحافی ، ایک ادیب ، اعلی پائے کے دانشور اور بلا کے مقرر تھے، انہوں نے ان گنت موضوعات پر قلم اٹھایا اور قوم کی فکری رہنمائی کا فریضہ جرات مندی سے انجام دیا ، وہ اپنے نظریات کی عملی شکل تھے۔ وارث میر کی جنگ دراصل جہل ، ظلمت، تنگ نظری، انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف تھی، وہ عمر بھر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے حریت فکر کے چراغ جلاتے رہے، اپنے نظریات کا پرچار ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ جسے وہ صحیح اور درست سمجھتے ہوں اسے زبان پر یا ضبط تحریر میں نہ لائیں۔ وارث میر کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کی آخری سانس بھی اپنے نظریات کے پرچار کی نظر کردی۔ وہ بلاشبہ آخری دم تک لڑتے لڑتے مارا گیا۔