میو ہسپتال بننے سے پہلے یہ علاقہ ہری سنگھ تلوہ کا باغ تھی۔ رنجیت سنگھ کے سپہ سالار نے جب یہاں باغ نہیں بنایا تھا تو یہ علاقہ باغ مائی لاڈو کہلاتا تھا۔مائی لاڈو کی مسجد آج بھی ہسپتال کے مشرق میں موجود ہے۔مائی لاڈو کے باغ سے پہلے یہ ایک ویرانہ تھا جہاں مقامی بھگت‘ فقیر اور مسلم درویش ٹھکانہ بنا لیا کرتے۔انگریز دور میں ہسپتال بنانے کا منصوبہ بنا تو بہت سی یادگاریں‘ سمادھیاں اور قبریں تعمیراتی کام کے دوران آثار سے محروم ہو گئیں۔ہسپتال کے ایک حصے کے ساتھ چھجو بھگت کا چوبارہ اب بھی موجود ہے چاروں طرف مریضوں کے وارڈ ہیں۔درمیان میں چوبارے کی عمارت ہے۔لاہور میں قدیم عمارات میں سے اگر کوئی عمارت سب سے بہتر حالت میں ہے تو وہ چھجو کا چوبارہ ہے۔وجہ یہ کہ اسے دوسرے علاقوںسے نقل مکانی کر کے آنے والوں اور قبضہ مافیا سے تحفظ حاصل رہا۔بس یہ ہوا کہ ہسپتال کے داخلی حصے میں آنے کی وجہ سے چوبارہ چھپ گیا ہے۔ چھجو شاہجہان بادشاہ کے عہد کا ایک خدا پرست فقیر تھا۔لاہور کے فقیروں اور درویشوں کا مطالعہ کرتے وقت یہ عجیب بات سامنے آتی ہے کہ مقامی باشندوں کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ ان کی خاصی تعداد پنجاب بھر میں موجود رہی ہے۔چھجو کو لاہور کی تارخی میں ہزاروں گمنام ہو چکے غیر مسلم فقیروں کے سلسلے کا ایک موتی سمجھ کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اس کا بھی کوئی سلسلہ ہو گا‘ کوئی گورو ہو گا اس گورو کا کوئی گورو ہو گا۔اخلاص اور انسانی دوستی کا ایک حلقہ ہو گا۔ کنہیا لال ہندی کا کہنا ہے کہ چھجو پیشے کے اعتبار سے صراف تھا۔ اکثر وقت فقیروں اور بھگتوں کے ساتھ گزارتا۔حضرت میاں میر شاہ بلاول اور شیخ اسماعیل مشہور میاں وڈا جیسے بزرگوں کے ساتھ اس کی دوستی تھی۔ بھگتوں اور صوفیوں کی صحت کا اثر یہ ہوا کہ سنار کی دکان چھوڑ کر تارک الدنیا ہو گیا۔معلوم نہیں یہ چوبارہ پہلے سے کسی عمارت کا حصہ تھا یا پھر چھجو کی موت کے بعد اس کے عقیدت مندوں نے تعمیر کرایا۔بہرحال بتایا یہی جاتا ہے کہ یہاں دو منزلہ چوبارہ بنا ہوا تھا۔جس کا زینہ لکڑی کا تھا۔چھجو اس چوبارے میں بیٹھ کر عبادت یا دیان گھیان میں مصروف رہتا۔جب کوئی ملاقات کے لئے آتا تو لکڑی کی سیڑھی لگا کر اسے اوپر بلا لیا جاتا۔میری پڑنانی بتایا کرتی تھیں کہ وہ بچپن میں اپنے والد میاں جان محمد اور اپنے دادا کے ساتھ جب قصور سے لاہور آیا کرتیں تو گوالمنڈی کے ایک مکان میں قیام ہوتا۔یہ مکان غالباً چونیاں کے تحصیلدار آتما رام کا تھا۔اس دوران انہوں نے چھجو کے چوبارے کی بابت کئی بار بتایا۔بہت کم سنی کی وجہ سے اب مجھے وہ تفصیلات یاد نہیں، پس گوالمنڈی ‘ سرکیوں کی دکانوں‘ رہائشی مکان اور جھجو کے چوبارے کا حوالہ یاد ہے۔ چھجو بھگت کا انتقال ہوا تو یہ چوبارہ اس کی سمادھی بنا دیا گیا‘ بعد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے عمارت کی آرائش میں خاصی دلچسپی لی۔چوبارے کے ساتھ کئی دوسری عمارتیں تعمیر کی گئیں۔چار دیواری پختہ تعمیر ہوئی۔احاطے کے اندر بہت سے دالان‘ شہ نشینیں‘ مکلف نشست گاہیں بنائیں گئیں۔ہر ہفتے دوشنبہ اور سہ شنبہ کے دنوں میں عقیدت مند مرد و خواتین جمع ہوتے اور عارفانہ کلام گایا جاتا۔چھجو بھگت کی سمادھی کے ساتھ جے رام بھگت‘ راگھو بھگت‘ جوالا بھگت‘ باوا ٹھاکر داس‘ دوارکا داس‘ گورداس‘ آپا بھگت‘ بدری بھگت‘ دیا بھگت‘ گھمنڈی بھگت‘ دیالو بھگت اور شیو دیال چوپڑہ کی سمادھیاں تھیں۔ان کا اب کوئی نشان نہیں۔ جب لاہور پر تین سکھ غارت گھر حکمران ہوئے تو باوا پرسوتم داس جے پور سے آیا‘ غارت گر حکمرانوں نے اسے چھجو بھگت کی سمادھی اور ساتھ واقع مندر کا مختار بنا دیا۔اس نے سونے کے کام والا مندر بنایا۔اس کی موت کے بعد باوا گودڑ مہنت بنا‘ پھر دوارکا داس سے باوا ہر بھجن داس مہنت ہوا۔اصول یہ رہا کہ اس کے مہنت شادی نہیں کرتے تھے‘ مجرد رہتے۔ یہ دائود پینٹھئے کہلاتے ہیں۔اس گروہ کا مہنت دائود رام ہے‘ ان کی الگ گرنتھ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس گرنتھ میں خدا کی واحدانیت کا ذکر ہے۔گوشت کھانا‘ شراب پینا‘ جھوٹ بولنا اور اللہ کے سوا کسی سے حاجت بیان کرنا ممنوع ہے۔ چھجو بھگت ایک ہزار چھ سو چھیانویں بکرمی یعنی 1052ہجری کو جہان فانی سے رخصت ہوا۔مورخین بتاتے ہیں کہ چھجو کا صرف چوبارہ نہیں تھا‘اس جگہ ایک چھوٹا سا گائوں بن گیا تھا۔چار دیواری کے اندر زمین کاشت ہوتی تھی جسے سیراب کرنے کے لئے دو کنوئیں موجود تھے۔ مہنت دوارکا داس کو عمارات اور باغات کا شوق تھا۔1823ء کو دوارکا داس کا انتقال ہوا۔ اس کا جانشین نہایت فضول خرچ تھا۔1830ء میں تمام باغات اور املاک رہن رکھ دیے گئے۔اس کی عیش بندی نے فقیروں کا ڈیرہ ویران کر دیا۔انگریز حکمران بنے تو لاہور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج بنانے کا فیصلہ ہوا۔چھجو بھگت کی سمادھی ہے جو سلامت چلی آ رہی ہے۔یہاں مریضوں کے لواحقین کبھی نماز پڑھتے ہیں اور کبھی اپنے کپڑے دھوکر کھلی جگہ پر ڈال دیتے ہیں۔چھجو بھگت کی کئی کرامتیں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے وہاں ایک چشمہ جاری کیا جہاں عرصے تک لوگ برکت کے لئے نہایا کرتے۔ چھجو بھگت کا چوبارہ لاہور کی کثیر القومی رومانی اور ثقافتی زندگی کا نشان ہے۔ اسی لئے مشہور ہے: جو مزا چھجو دے چوبارے‘او بلخ نہ بخارے