مولانا فضل الرحمان لاؤلشکر سمیت اسلام آباد میں فروکش ہوچکے۔ میڈیا جسے لوگ جبری زباں بندی کا طعنہ دیتے تھے‘دن رات مولانا اور ان کے دھرنے کی کوریج کرتاہے۔ بہت سارے ان کی دانش اور حکمت کے گیت بھی گاتے ہیں۔ حزب اختلاف جماعتوں کے لیڈر بھی مفت کا ہجوم دیکھ کر مولانا کے ساتھ کنٹینر پر چڑھ گئے۔ سیکولر، لبرل ، دائیں اور بائیں بازو کی تفریق مٹا کر مولانا کے دربا ر میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ احتجاج کرنا، دھرنا دینا یا پھر تحریکیں چلانا زیادہ مشکل نہیں اصل چیلنج ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ہوتاہے۔ مولانا کی جماعت کی ملک گیر سطح پر محدود حمایت ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسا میکا نزم نہیں کہ وہ ملک کی مقبول جماعت بن سکیں یا پھر سماج کے سارے طبقات کو ساتھ لے کر چل سکیں۔ ستر کی دہائی سے ملک میں بھرپور احتجاجی تحریکیں چلیں ۔ نتائج بھی حاصل کیے ۔ کم ازکم حکومتوں کو چلتاضرور کیا ۔ان تحریکیوں میں مذہبی جماعتیں ہمیشہ ہر اوّل دستہ رہیں۔ ان کے کارکنوں نے قربانیاں دیں۔ جیلیں کاٹیں لیکن منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ پاکستان قومی اتحاد جسے پی این اے کے نام سے ابھی تک یاد کیا جاتا نے ذوالفقار علی بھٹو جیسے ہر دلعزیز اور شعلہ بیاں لیڈر کے خلاف ملک کے لگ بھگ تمام بڑے شہروں میں نظام زندگی معطل کیا۔ بھٹو رخصت ہوگئے۔ پی این اے کے احتجاج کی کوکھ سے ضیاء الحق کے مارشل لاء نے جنم لیا۔ گیارہ برسوں تک انہوں نے بلاشرکت غیر ے کروڑوں پاکستانیوں کو لاٹھی سے ہانکا۔اسلام کے مقدس نام پر ملائیت اور پاپائیت کا ایک ایسا عفریت کھڑا کیا کہ کئی عشروں کی ریاضت، قربانیوں اور شہادتوں کے بعد اب جاکر اس مائنڈ سیٹ سے نجات ملی۔ مولانا فضل الرحما ن نے آزادی مارچ میں ستر کی دھائی کے نعرے دہرائے۔ مذہب کا سیاسی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ ان معاملات کو دوبارہ زیر بحث لایا جن پر جمہور کا اتفاق ہے۔ناموس رسالتﷺ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر ملک گیر اتفاق رائے پایاجاتاہے۔ معلوم نہیں وہ یہ بحثیں تازہ کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کس کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کے لیے یہ نعرے بے معنی ہیں۔شہری اگر مولانا پر یقین کرتے ہوتے تو خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے بجائے مولانا کے امیدوار ں کو ووٹ دیتے۔ ہوس اقتدار نے قائداعظم اور اسلام کے نام سے بیزار محمود خان اچکزئی اور سرخ پوشوں کے آخری چشم وچراغ اسفند یار ولی کو بھی مولانا کی صف میں لاکھڑا کیا۔عبدالولی خان اور خان عبدالغفار خان کے جانشینوں نے ان کی لٹیا ہی ڈبو دی۔خان عبدالغفار خان کی سیاست سے اتفاق نہیں لیکن وہ ایک ایثار کیش رہنما تھے۔ ان کے جانشین کج رواور کم فہم ہی نہیں بلکہ بدعنوانیوں اور جعل سازیوں کی اپنے دور اقتدار میں نئی تاریخ رقم کرچکے ہیں۔محمود اچکزئی کی نوازشریف سے قربت کیاہوئی کہ انہوں نے سارے سرکاری عہدے اپنے اہل خانہ میں تقسیم کردیے۔ ششدر رہ گئے ان کے حامی اور کہنے لگے کہ محمود خان اچکزئی اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ حکومت سے لوگوں کو شکایات ہیں۔ سروے بتاتے ہیں کہ مہنگائی کے ہاتھوں شہری دکھی اور پریشان ہیں۔ سرمایاکار بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ہاتھ روک رہے ہیں۔ مارکیٹ میں پیشہ پھینک نہیں رہے لیکن کوئی ایک بھی شخص یہ نہیں کہہ رہاہے کہ ہمارا وزیراعظم اقرابا پروری کرتاہے۔ خاندان میں عہدے بانٹتاہے۔ لوگوں کی جیبوں پر نظر رکھتاہے اور اپنا مال بچابچا کر رکھتاہے۔ بیرون ملک روپیہ منتقل کرتاہے۔ ناجائز دولت سے برطانیہ اور تھائی لینڈ میں جائیدادیں خریدتاہے۔ کابینہ کے وزراء کی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھتاہے لیکن لوٹ کھسوٹ میں کوئی بھی ملوث پایانہیں گیا۔ سرکاری افسروں کی ایک تعداد کام کاج میں سست ہے۔ ٹھیکوں اور عوامی مفاد کے منصوبوں سے حصہ وصول کرنے کی انہیں عادت تھی اب کوئی مال پانی کا موقع نہ ملتا۔ پختہ عادتیں بدلنے میں وقت لیتی ہیں بلکہ بعض عادتیں قبر تک پیچھے کرتی ہیں۔ پاکستان کے پڑھا لکھے طبقے کے پاس عمران خان کا کوئی متبادل نہیں۔شریفوں اور زرداریوں کی حکومت اب کوئی آپش نہیں ۔ انہوں نے ملک کی جو خدمت کرنا تھی کردی۔ لوگوں نے دیکھ لیا کہ گزشتہ تین دھائیوں میں دودھ وشہد کی جونہریں بہیں۔معاشرے کے فعال طبقات نے گزشتہ چودہ ماہ میں دیکھا کہ حکومت نے عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو سدھارا کیا۔ داخلی سطح پر دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے۔ عرب ممالک ہی نہیں بلکہ ایران کے ساتھ بھی تعلقات میں نمایاں بہتری آئی۔کشمیر پر نمایاں عالمی حمایت حاصل کی۔ پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل لگانے والے خاموش ہوچکے ۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اعتراضات کا جواب دینے اور اس کے چنگل سے نکلنے کی سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ ٹیکس نیٹ کے حجم میں اضافہ ہوا۔امرائور مافیا نے ریاست کی عمل داری تسلیم کی۔پراپرٹی ٹائیکون جن کی جیبوں میں حکمران اور حکام ہوا کرتے تھے۔ راہ راست پر آچکے ۔ زمینوں پر قبضے کرنے والے دبک چکے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہم درست راہ پر گامزن ہیں۔ منزل اگرچہ دور ہے ۔ راستہ بھی کٹھن ہے لیکن سمت کا تعین ٹھیک ہوچکاہے۔ پاکستان کی بدقسمتی! درست پٹری پر جب وہ گامزن ہونے لگتاہے تو کوئی نہ کوئی حادثہ اس کا راستہ روک لیتاہے۔عرصے بعد سویلین اور خاکی ایک صفحے پر جمع ہیں۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کی خاطر۔ملک کو بھنور سے نکالنے کے لیے عسکری اور سیاسی لیڈرشپ کا تال میل ناگزیر ہے ۔ سابقہ حکومتوں کے دور میں اداروں کے درمیان تصادم کی سی کیفیت رہی ہے جو اب تعاون اور اشتراک میں بدل چکی ہے۔وزیراعظم عمران خان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں۔ وہ اپنے خاندان کے لیے سلطنت قائم نہیں کررہے۔ خاندان تو دور کی بات پارٹی والوں کو بھی قائدے کلیہ کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ عوام کی کیفیت اس مصرے کی ماند ہے ؎ وہ رہبر ہے کہ رہزن ہے کروں یہ فیصلہ کیسے