عمران خاں نے جو کچھ بونیر کے جلسہ عام میں سرعام کہا پہلے پہل متعلقہ معتبر حلقوں کو سامنے بٹھا کر سمجھانے کی کوشش کی‘ کسی نے اس پر کان نہیں دھرے تو اس نے خواص سے مایوس ہو کر عوام میں آنے اور ان سے تعاون حاصل کرنے کا ارادہ کیا ۔ جو دل میں تھا وہ زبان پر لے آیا۔پہلے آج سے پندرہ سال پہلے پی ٹی وی پر نشر ہونے والے پرویز مشرف کے انٹرویو کا مختصر حصہ نقل کرنا چاہوں گا‘ چیف ایگزیکٹو ‘ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ صدر پاکستان جو فوج کے سپہ سالار بھی تھے، وہ کہتے ہیں: میں اپنی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کی اقتصادی صورت حال کو سنبھالنے کو قرار دوں گا۔ہاں میں اسی کو اپنی کامیابی خیال کرتا ہوں۔1999ء میں جب میں نے ملک کی ذمہ داری سنبھالی تو میں بڑا فکر مند بلکہ مایوس تھا کیونکہ دونوں پارٹیوں نے صورتحال کو اس قدر بگاڑ دیا تھا کہ میں خیال کرتا تھا اس(پاکستان) کو بچانا اب ممکن نہیں۔ عام آدمی یہ کبھی نہیں سمجھ سکتا کہ ہم کہاں ہیں؟ کس مشکل ‘ کس مصیبت میں پھنس چکے ہیں‘ اب دیکھتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف بیس کروڑ ہیں‘ ٹیکس بے تحاشہ بڑھے ہوئے ہیں‘ٹیکس اکٹھے کرنے والے اداروں پر جو کچھ ہم خرچ کرتے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو کچھ یہ ادارے اکٹھا کرتے ہیں ۔جب آمدنی کچھ نہیں ہوتی تو ہمیں ادھار لینا پڑتا ہے ‘ہم قرض لیتے ہیں اس قرض کو ادا کرنے کے لئے اور مہنگا قرض لینا پڑتا ہے۔اس قرض کو اتارنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ہم اس سے کبھی نہیں نکل سکتے‘اس پر بڑی مصیبت یہ ہے کہ سرکاری تحویل میں جو کارپوریشن ہیں وہ کچھ کچھ کمانے کی بجائے سو ارب روپے سالانہ خسارے میں ہیں‘ان کا خسارہ بھی قرضوں سے پورا کیا جا رہا ہے۔تو میں سمجھتا تھا کہ اس سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے‘ میرا خیال تھا کہ پاکستان کو باقی رکھنا اور چلانا کسی طور قابل عمل نہیں ہے۔ میں بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ اکانومی کی مجھے زیادہ سمجھ تو نہیں تھی لیکن میں یہ جان گیا تھا کہ ہم صرف اسی صورت بچ سکتے ہیں کہ اپنی اقتصادیات کو کسی طرح بہتر بنا سکیں۔اس کو ٹھیک کر کے بچ سکتے ہیں‘ہم نے اس سمت میں پیش رفت کی‘ آج میری مایوسی امیدوں میں بدل چکی ہے‘ میں سمجھ گیا ہوں پاکستان اور پاکستانیوں کے وسائل بے تحاشہ ہیں لیکن یہ بدترین بے تدبیری، بدانتظامی اور بدعنوانی کا شکار ہو رہا ہے ورنہ اس کی صلاحیت اور وسائل میں کوئی کمی نہیں ہے۔ دماغ بھی ہے‘وسائل بھی ہیں‘ صلاحیت بھی ہیں، بس بد انتظامی‘ بدعنوانی اس کو کھا گئی ہے۔ ہم جو سو ارب گھاٹے میں جا رہے تھے وہ بدانتظامی کی وجہ سے تھا اور ٹیکس کے معاملات اور اخراجات‘ ترقیات میں بے تحاشہ کرپشن ہو رہی تھی۔ کے ایس سی‘ سٹیل ملز‘ واپڈا وغیرہ منافع کی بجائے بوجھ بن گئے تھے‘ یہ بوجھ پاکستان کو ناقابل عمل بنا رہا تھا‘ میں نے وہاں ایک ایماندار‘ باصلاحیت آدمی لگا دیا‘ اس سے کہا مجھے صاف بتائو کیا تم اس سب کو سنبھال سکتے ہو؟اس نے حامی بھری اور میں نے اس کے حوالے کر دیا‘ اب وہ منافع بخش ہیں پہلے کیوں نہیں تھے؟کس نے ان کو لوٹا؟ کون سارے وسائل نگل گیا؟ مختصر یہ کہ میں نے پاکستان کی اکانومی کو جو سنبھالا ہے یہی میری اصل اور سب سے بڑی کامیابی ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کی مالی حالت تسلی بخش نہیں ہے تو کوئی گھر‘ کوئی کاروبار کوئی ملک نہیں چلایا جا سکتا۔یہی سب کی بنیاد ہے‘ کسی بھی قوم کا تحفظ اور خوش حالی اس کی اکانومی سے جڑی ہوئی ہے‘ وہ ٹھیک ہے تو آپ سب کچھ بنا سکتے ہیں‘سب حاصل کر سکتے ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں۔میں نے جو کچھ خدمت کر سکا وہ یہی ہے کہ اپنے ملک کی اقتصادیات کو صحیح سمت میں لگا دیا۔میں اس ایک کامیابی پر اطمینان محسوس کرتا اور فخر بھی کر سکتا ہوں۔ آپ عمران خاں پر کس لئے چلا رہے ہو‘ اس نے کیا کیا ہے؟ اور اس نے کہا کیا ہے؟کیا یہ ساری باتیں اقتدار سے محرومی کے بعد یاد آئیں یا اس نے بروقت انتباہ کیا تھا‘کسی کو اعتماد میں لیا اور سمجھایا تھا؟عمران خاں کی کابینہ کے وزیر خزانہ نے سینٹ میں کھڑے ہو کر کہا کہ وزیر اعظم نے مجھے اسٹیبلشمنٹ کے سب سے معتبر شخص کے پاس بھیجا کہ میں سمجھائوں اور آگاہ کروں کہ ہم نے ملک کی اکانومی کو سنبھال لیا ہے‘ کورونا کی وبا کے باوجود جب پوری دنیا کی اکانومی منفی پیداوار دے رہی تھی ہم نے 5.7کی ریکارڈ ترقی کی ہے‘اس سال ہماری قومی پیداوار 6فیصد سے زیادہ اور آئندہ برس7 فیصد ہونیوالی ہے‘ زرعی پیداوار‘ صنعتی پیداوار‘ برآمدات اور بیرونی ملک سے ترسیلات پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں (ایوب خاں کے دور حکومت سمیت) بلند ترین سطح پر ہے‘ اس وقت اگر سیاسی عدم استحکام ہوا تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہونگے‘ اسکے اثرات کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری گزارشات کو نظر انداز کر دیا گیا اور اس کا خمیازہ موجود حکومت اور معتبرین نہیں بلکہ قوم کو بھگتنا پڑا ہے‘خطرات بڑے ہیں‘ اس لئے کسی ایڈونچر کی ذرا برابر گنجائش نہیں‘ بدقسمتی سے ہماری نصیحت کو نظر انداز کر دیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ عمران خاں نے بونیر کے جلسے میں‘ اپنے وزیر خزانہ کی کہی باتوں کی تکرار کی ہے‘ ابھی تو اس نے ذمہ داروں کی طرف انگلی اٹھائی نہ ان کا نام لیا۔ کاش یہ حکومت تھوڑی سی بہادر بن کر عمران خاں کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ چلائے‘ مقدمے کی شروعات تک دسمبر آ چکا ہو گا‘ سارے پردے ہٹ جائیں گے‘ا مریکہ سے بھیجا گیا پاکستانی سفیر کا مراسلہ جسے ہر کوئی چھپا کے بیٹھا ہے‘ صدر پاکستان اور سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے ریفرنس بھیجے جانے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نوٹس لینے پر اپنی آمادگی ظاہر نہیں کر رہے ہیں‘ حکومت کی مقدمہ درج کرنے کی ہمت اور جسارت سب کو بے نقاب کر دے گی‘ تھوڑی ہمت‘ معمولی جسارت بڑے پردے اٹھا دے گی اور بہت سے مسائل کا حل ثابت ہو گی۔ عمران خاں نے بونیر کے جلسہ عام میں وہی کہا جو وزیر خزانہ نے لب بام قومی سلامتی کمیٹی کے اہم ممبران کے سامنے رکھا‘ سینٹ کے فلور پر سرعام کہا‘ سابق وزیر اعظم عمران خاں کی زبانی اس کا خلاصہ حاضر ہے۔ ’’اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی‘ تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ یہ بھی تباہ ہونگے‘فوج سب سے پہلے تباہ ہو گی‘کیونکہ ملک دیوالیہ ہو گا تو کدھر جائے گا‘ یہ جب سے آئے ہیں روپیہ گر رہا ہے‘ سٹاک مارکیٹ بدترین حالت میں چلی گئی‘ ملک ڈیفالٹ (دیوالیہ)کی طرف جا رہا ہے۔اگر پاکستان دیوالیہ ہو جائے تو سب سے پہلے کون سا ادارہ زد میں آئے گا‘ فوج ہمارا سب سے بڑا اور اہم ترین ادارہ ہے۔اس کے بعد ہمیں سہارا دینے کے لئے کون سی قیمت یا رعائت طلب کی جائے گی‘وہی جو یوکرین سے مانگی گئی تھی‘ وہ ایٹمی اثاثوں سے دستبرداری اور ایٹمی پروگرام کی بساط لپیٹ دینے کی گارنٹی‘ ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ انہیں کیا ہے؟پاکستان ایک ہی مسلم ریاست ہے جو ایٹمی صلاحیت اور بہترین فوج رکھتی ہے‘ یہی چیز ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی‘ جب ہمارا ایٹمی تحفظ چلا گیا تو پاکستان کے تین حصے ہونگے۔ہندوستان کے تھنک ٹینکس اور دوسرے ملکوں کے دیکھ لیں باہر بلوچستان کو الگ کرنے کے منصوبے دیکھ لیں جو ہمارے دشمنوں نے کب سے بنا رکھے ہیں‘اپنی حرکتوں سے یہ ملک خود گرنے جا رہا ہے۔ قوم کو بروقت خطرے سے آگاہ کرنا اگر غداری ہے تو اس خطرے کو ہمارے آنگن میں لے آنے والوں کو کیا نام دیا جائے گا؟عمران پر غداری کا مقدمہ چلائیں تاکہ ساری قوم پہلی مرتبہ اصل غداروں کا چہرہ دیکھے۔