عوام کا رخ ایک طرف اور پارلیمنٹ کا مخالف سمت میں ہے‘ اگر سیاسی مسائل کو جلد ہی حل نہ کر لیا گیا تو جاری ہنگامہ آرائی کی شدت کو ’’رمضان المبارک‘‘ بھی کم نہیں کر سکے گا۔اس کی شدت میں اضافے سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ سیاسی کھیل کی معطلی کا ’’دس سالہ ‘‘ وقفہ شروع نہ ہو جائے‘ اس میدان میں کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے مقابلے میں ’’ریفری‘‘ کا کردار زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔اب ریفری کی نیت پر نظر رکھنا ضروری ہے‘ تب ہی آپ جاری کھیل کے مستقبل بارے کوئی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ سیاست کا کھیل‘ میدان سے نکلا جاتا ہے‘ اپنے میدان کی حدوں سے نکل کر یہ دشمنی کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ اس دشمنی میں ابھی ’’خون‘‘ کی آمیزش نہیں ہوئی‘ قطرہ خون بہہ جانے سے پہلے عدلیہ کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو کھیل کی قسمت کا آخری فیصلہ ’’ریفری‘‘ کے ہاتھ میں ہو گا وہ دونوں فریقوں کو سختی سے ڈانٹ ڈپٹ کر کے کھیل کے قواعد کو نافذ کرے یا کھیل کو ختم کر کے میدان خالی کروائے‘ تماشائیوں کو گھر بھیجے اور کھیلوں کے درمیان کا وقفہ شروع ہو جائے ۔وہی وقفہ جو ہر دس‘ بارہ برسوں کے بعد شروع ہو جایا کرتا ہے ریفری اکیلا سارے میدان میں دندناتا پھرتا ہے۔ ایوب خاں‘ یحییٰ ‘ ضیاء الحق اور مشرف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تماشائیوں کا کیا ہے‘ وہ تو تماشائی ہیں‘ انہیں تماشا چاہیے‘ بھلے یہ تماشہ کھلاڑیوں سے ہو یا ریفری رچایا کریں۔ کھلاڑیوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ازخود کسی مرد معقول کو ثالث مقرر کر کے اپنا مقدمہ اس کے سامنے رکھیں اور وہ جو بھی فیصلہ کرے‘ اس کے مطابق کھیل کو آگے بڑھائیں ۔اس کام کے لئے موجود یا ریٹائر جج بھی ہو سکتے ہیں اور صدر مملکت عارف علوی‘ بھی بشرطیکہ وہ فیصلہ کر لیں کہ اپنے سیاسی کیرئیر کی معراج وہ دیکھ چکے مزید کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ یہ کام ریفری بھی بآسانی انجام دے سکتا ہے کیونکہ دونوں طرف کے اصل کھلاڑیوں کے درمیان نقطۂ اتفاق موجود ہے‘ وہ ہے صاف‘ شفاف نئے انتخابات۔ نئے انتخابات ملک کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا اول روز سے مطالبہ ہے ۔حالیہ لانگ مارچ کے دوران پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری بھی بڑی بلند آواز میں یہ مطالبہ دہراتے رہے ہیں ۔حکمران تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عام جلسوں کا انعقاد کر کے پہلے سے اپنی نیت کا اظہار کر چکے ہیں۔ نئے انتخابات کے اعلان میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘پھر بھی ایک رکاوٹ ہے اگرچہ وہ بہت چھوٹی اور معمولی سی ہے مگر حالیہ دنوں میں پی ڈی ایم‘ ان کے دبائو میں ہے‘وہ دبائو حکومت کی اتحادی چھوٹی جماعتوں اور اس کا ساتھ چھوڑنے والے پارلیمانی ممبران کا ہے ۔یہ دبائو اس وقت تک زیادہ شدت سے موجود رہے گا جب تک تحریک عدم اعتماد کا کوئی فیصلہ یا نئے انتخابات کا اعلان نہ ہو جائے۔ بہترین قابل عمل پرامن حل صرف ایک ہے اور وہ ہے نئے انتخاب مگر یہ حل سازشیوں کے ساتھ ساتھ درمیان میں لٹکی حکومتی اتحادیوں اور غداروں کے لئے سیاسی موت بھی ہے وہ اس حل پر تلملا کر راہ جائیں گے۔ ان کی آخری حد تک یہ کوشش ہو گی کہ فساد اور عناد کے دن لمبے ہو جائیں سیاسی ہنگامہ آرائی کو طول دینا اور اسے جاری رہنے کی اجازت ملک کے بدخواہوں اور قوم کے دشمنوں کے لئے فائدہ مند ہو تو ہو مگر پاکستان کے لئے زہر قاتل ہے ۔دنیا اس وقت تاریخ کے دوراہے پر آن رکی ہے‘اسے اس دوراہے پر ایک راہ کا انتخاب کرنا ہے کون کس راہ پرچلے گا اس کا فیصلہ ہوا چاہتا ہے۔غلط راہ چلنے والے تاریخ کی اندھی غاروں میں گم ہو جائیں گے اور دوسری راہ کے ہم سفروں کا ستارہ تادیر چمکتا رہے گا۔ان دنوں ہم غفلت میں پڑے رہ سکتے ہیں نہ آپس کی لڑائی میں الجھ کر اپنی آئندہ نسلوں کو اندھی غاروں میں گم ہو جانے کے لئے چھوڑ سکتے ہیں۔ پاکستان عالمی سیاست کا اہم مضبوط اور طاقت ور فریق ہے ‘اس کے دشمن ہمیشہ خائف اور دوست اس کی رہنمائی یا ہم سفری کے لئے انتظار کرتے ہیں‘ہمارے اہم سیاستدانوں اور فیصلہ ساز اداروں کو اسے تباہی اور پیچھے رہ جانے کے خطرے کے سدباب کے لئے جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچنا ہو گا۔ سیاستدانوں کی لڑائی‘ درخت پر لڑتی چڑیوں کی طرح ہو چکی ہے ‘جو ٹہنی پر گتھم گتھا زمین پر گر کر بھی ایک دوسرے سے لٹکی رہتی ہیں تاوقتیکہ کہ راہ چلتی بلی کا لقمہ بن جائیں۔ سیاست اگر کسی پرامن حل تک نہ پہنچ سکی تو وقفہ شروع ہو جائے گا اس وقفے کی طوالت اور بعد کے حالات کی کوئی واضح پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔اگر سیاست میں وقفہ نہ آیا اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تو انتخابات کے نتائج کو کسی حد تک سمجھا اور کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے لیکن اگر وقفہ آ گیا تو یہ وقفہ ایک عشرے سے کم نہیں ہو گا۔یہ کئی عشروں پر محیط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان دبائو ڈالنے والی مغربی جمہوریتوں اور امریکہ کے اثر ورسوخ سے آزاد ہو چکا ہے۔ اب پاکستان کا ساتھ مفاد اور مستقبل جن دوستوں اور ملکوں سے جڑنے والا ہے ‘فی الوقت اپنی قوموں کی خوشحالی اور عالمی سیاست میں اپنا مقام و مرتبہ بڑھانے میں لگے ہیں‘انہیں جمہوریت سے خود کوئی دلچسپی ہے نہ اپنے دوستوں پر کوئی نظریہ اور طرز معاشرت تھوپنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔حفاظت‘ تجارت اور خوشحالی ان کے مرکز نگاہ ہیں ‘اپنے دوست پاکستان کو بھی ان تین نقاطی پروگرام میں حصہ دار بنانا چاہتے ہیں یعنی ’’دفاع میں خود کفالت باہمی تجارت عوام کی خوش حالی۔پاکستان کے لئے بڑی طویل مدت کے بعد یہ خوش نصیب لمحے میسر آئے ہیں کہ وہ آزاد دنیا میں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق فیصلے کرے اور اس پر کوئی بیرونی دبائو نہ ہو وہ اپنے دشمنوں اور حاسدوں کا پورے اعتماد کے ساتھ سامنا کر سکے ۔دوست اس پر بھروسہ کریں وہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے قابل ہو چکا ہے ‘یہی نہیں بہت سے دوستوں کے لئے حفاظتی چھتری فراہم کر سکتا ہے جس پر وہ دل و جان بھروسہ کریں۔ بھلے دنوں کی نوید ہے کیا ہم خوش قسمتی کی دستک پر اپنا دروازہ کھول دیں گے کہ وہ ہمارے صحت میں داخل ہو خیرو برکت کے خزانے لٹا دے یا ہم باہم دشمنی میں پڑ کر اسے جانے دیں گے کہ وہ کسی اور کے دروازے میں داخل ہو کر خوش قسمتی سے نواز دے۔ نہیں ایسا نہیں ہونے کا‘گزشتہ دہائیوںمیں ہم نے نئے دوستوں کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تھا‘انہیں اپنی زمینوں میں راہداریاں دیں کہ ہم قافلے کی صورت میں نکلیں دور دراز کے ملکوں اور زمینوں تک رسائی حاصل کریں ‘ان کے ساتھ تجارت کریں تعلیم و ترقی علم و دانش جو مل سکیں وہ حاصل کریں جواب میں انہیں بھی ان شاہراہوں پر چلنے کی دعوت دیں ‘وہ دوست جو بہت زیادہ زاد راہ ان شاہراہوں تک لے آئے ہیں ‘وہ ہمیں غفلت میں پڑا رہنے نہیں دیں گے‘ بہتر ہے ہم خود جاگ جائیں۔