گزشتہ کالم میں اس پہلو پر بات کی گئی کہ ایک غیر ملکی معزز مہمان نے ہمیں وائلڈ لائف کے تحفظ کا درس دیا تو یاد آیا کہ کس بے رحمی سے انگریزوں نے ہندوستان میں شیروں اور وائلڈ لائف کا قتل عام کیا اور قریبا 80 ہزار شیروں کا شکار کیا ۔ آج اس افسوسناک معاملے کے مزید دردناک پہلو پر بات کریں گے کہ یہ سب کیوں کیا گیا؟ اس کے یقینا بہت سے عوامل ہو سکتے ہیں۔ایک قابض قوت مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ایسا ہی حسن سلوک کیا کرتی ہے لیکن یہاں شیروں کے قتل عام میں ایک اور فیکٹر بھی کام کر رہا تھا۔پروفیسر جوزف سرامک اپنی کتاب Face Him Like a Briton میں لکھتے ہیں کہ برطانوی راج میں ہندوستان میں شیروں کے اس بے رحمانہ شکار کی ایک وجہ ٹیپو سلطان سے انگریز کی نفرت بھی تھی۔ سلطان ٹیپو شیروں کے دلدادہ تھے ۔انہیں شیر میسور بھی کہا جاتا تھا۔ٹیپو سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے شیر جیسا ۔ ان کی تلواروں اور خنجر پر بھی شیر کی شبیہہ بنی ہوتی تھی۔شیر ہی ان کی سلطنت کا سرکاری نشان تھا اور ان کے لیے جو تخت بنایا تھا وہ بھی ایسا تھا جیسا کوئی شیر کے اوپر بیٹھا ہوا ہو۔ ٹیپو سلطان نے فرانسیسی معماروں سے ایک مجسمہ بنایا تھا جس میں ایک شیر ایک انگریزسپاہی کو گرائے ہوئے ہے۔ یہ مجسمہ آج بھی رائل البرٹ میوزیم میں رکھا ہے۔ چنانچہ ٹیپو سلطان کو شکست دینے کے بعدانگریز نے ٹیپو سلطان کو Outdo کرنے کے لیے شیروں کا اس بے رحمی سے شکار کیا کہ جہاں لاکھوں شیر پائے جاتے تھے وہ برطا نوی راج کے اختتام پر محض چند ہزار رہ گئے۔وھشت کے اس سارے کھیل میں شیر میسور کی تذلیل مقصود تھی۔ چنانچہ سلطان ٹیپو کے میسور میں ہی وین انجن اینڈ وین انجن نامی ایک فرم قائم کی گئی جو شیروں کو حنوط کرتی اور کھال میں بھوسہ بھر کے جانوروں کے ماڈل تیار کرتی۔ یہ کام کہیں اور بھی ہو سکتا تھا۔ میسور سے بڑے شہر بھی موجود ہے جہاں کی مارکیٹ کے امکانات میسور سے کہیں زیادہ تھے لیکن چونکہ مقصد سلطان ٹیپو کی نسبت کی تذلیل تھی اس لیے یہ فرم میسور میں قائم کی گئی۔میسور میں وحشت کا یہ کھیل کتنی شدت سے کھیلا گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صرف اس ایک فرم نے 43 ہزار شیروں اور 30 ہزار چیتوںکی کھال کو پراسس کیا۔جس شہر میں شیر میسور سلطان ٹیپو کی یادیں بسیرا کیے ہوئے تھیں اس میسور کے بازاروں میں اور چوراہوں میں شیروں کی کھالوں کو خشک کیا جاتا ۔ ہندوستان بھر سے شیر مار کر ان کی کھال میسور بھجوائی جاتی ۔ یہی نہیں بلکہ سلطان ٹیپو سے جڑی ہر نسبت کو ذلیل کیا گیا۔ وائسرائے نے اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھا۔ اور پھر انگریز ڈپٹی کمشنرزنے اسی رسم کو آگے بڑھایا۔ ٹیپو سلطان کی ریاست میں صوبیدار کا عہدہ گورنر کا عہدہ ہوتا تھا ، انگریز نے ایک لفٹین کے ماتحت عہدے کو صوبیدار کا نام دے دیا۔ سلطان ٹیپو کے وزیر خوراک کے منصب کو خانِ ساماں کہا جاتا تھا انگریزوں نے اپنے باورچی کو خانساماں کہنا شروع کر دیا۔ ٹیپو سلطان نے سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سے مدد چاہی تھی ، انگریزوں نے حجام کا نام خلیفہ رکھ دیا۔ٹیپو کے دربار میںپگڑی کو عزت اور فضیلت کی علامت سمجھا جاتا تھا انگریز نے نوکروں اور غلاموں کو پگڑی پہنا دی۔ٹیپو سلطان کے دور میں جمعدار ایک بہت بڑے پولیس افسر کا نام تھا، انگریوں نے کاکروب کو جمعدار کا نام دے دیا۔ہماری فرمانبرداری دیکھیے ہم آج تک نفرت اور تذلیل کی اس میراث کو گلے سے لگائے پھر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم ’’ مہذب ‘‘ ہو گئے۔ ٹیپو سے انگریز کی یہ نفرت اس لیے تھی کہ وہ ہندوستان کا آخری آزاد سلطان تھا۔بہادر شاہ ظفر جیسے کردار کو آخری سلطان کہنا ایک بد ترین مذاق سے کم نہیں۔ بہادر شاہ ظفر تو 1857 میں معزول ہوا مغلوں کا تو عالم یہ تھا 1797 میں ٹیپو نے انگریزکے مقابلے کے لیے سلطنت عثمانیہ کو تو خط لکھا لیکن دلی میں بیٹھے اورنگزیب عالم گیر کے بیٹے شاہ عالم کو خط نہیں لکھا۔ کیونکہ ٹیپو سلطان کو معلوم تھا یہ سلطان محض ایک مہرہ ہے جس کے بارے میں دلی شہر میں منچلے نعرے لگاتے تھے کہ ’’سلطنت شاہِ عالم،از دلی تا پالم۔ چنانچہ آخری آزاد سلطان کی ہر نسبت کو ذلیل کیا گیا۔ جارج یول نامی ایک برطانوی افسر نے ہندوستان میں قیام کے دوران 400 شیر وں کا شکار کیا اور جیفری نائیٹنگیل نے 300 شیر مارے۔یعنی صرف دو برطانوی اہلکاروں کے ہاتھوں 700 شیر مارے گئے۔ امریکہ کے برگیڈیئر جنرل ولیم مچل 1924میں وائسرائے کے مہمان کے طور پر بھارت آئے تو انہوں نے یہاں جانوروں کا بے رحمی سے شکار کیا۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہیں امریکہ میں ’ فادر آف دی ایئر فورس‘ کہا جاتا ہے اور بعد میں جن کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ انہوں نے اسی سال نیشنل جیوگرافک میگزین میں Tiger Hunting in India کے نام سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ: گزشتہ تین دنوں میں ہم نے اتنے زیادہ جانوروں کا شکار کیا کہ ان کی کھالیں خشک نہ ہو سکیں۔ چنانچہ ہم نے یہ ساری کھالیں ٹرک کی چھت پر ڈال دیں کہ راستے میں ہی خشک ہوتی رہیں گی۔ برطانوی افسران اور اہلکاروں نے برصغیر کے جنگلوں میں جس بے رحمی سے شکار کیا وہ ایک تاریک باب ہے۔ گاندھی اروان معاہدے والے وائسرائے لارڈ ارون کے بارے میں کہا جاتاہے کہ انہوں نے 10 ہزار بھڑ تیتر مارے تھے۔راولپنڈی کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے پوٹھوہار کے علاقے میں ایک روز میں 40ہرنوں کا شکار کیا۔ میرے خیالات کا یہ سلسلہ ٹوٹا تو دیکھا ، محفل ابھی جاری تھی۔ برصغیر کی جنگلی حیات کا قتل عام کرنے والے مہربان ، اب ہمیں سمجھانے آئے بیٹھے تھے کہ ایک مہذب قوم کی طرح جنگلی حیات کا تحفظ کیسے کیا جاتا ہے اوراحساس کمتری کے مارے شرکاء کے چہرے بتا رہے تھے کہ ان کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہم مقامی لوگوںکے مہذب ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ ٭٭٭٭٭