معروف صحافیوں، ثقہ دانش وروں اور پکے پِیڈے اینکروں کو نوید ہو کہ ناتجربہ کار عمران خان کی مہنگائی، زبانی بیانات اور جذباتی تقاریر والی انتقامی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ یہ بھی مان لیا کہ نون لیگ اور پی پی پی کے لیڈروں کی کرپشن کے قصے بھی اسی کھلاڑی کے ذہن کی اختراع تھے اور یقینا اسی ضدی کپتان نے نون لیگ کی حکومت میں پی پی پی اور پی پی پی کے دورِ اقتدار میں نون لیگ کے خلاف بنوائے گئے مقدمات کا آئیڈیا ان کے دھیان، گمان میں ڈالا ہوگا۔ یہ پٹرول اور ڈالر کی چھلانگیں بھی آپ لوگوں کے بقول اسی نا تجربہ کار کا ذاتی عندیہ رہا ہوگا؟ ’یوتھیوں‘ کے اس لیڈر پر ایک الزام یہ بھی مسلسل دھرا جاتا رہا کہ اس کی پرورش اور بڑھوتری چونکہ ناز و نعم والے ماحول میں ہوئی ہے، اس لیے اسے یہاں کے غریبوں کے مسائل و وسائل و خصائل کا ادراک نہیں ہے۔ اب تو سنا ہے کچی بستیوں، ویران جھگیوں اور کسانوں کے کھیتوں میں ہَل پنجالی کے ساتھ پروان چڑھنے والے بلاول، مریم، حمزہ، زبیر، ابنِ فضل الرحمن بقلم خود اقتدار میں آ چکے ہیں۔ (اپنے حکیم جی تو خواہ مخواہ کہتے رہتے ہیں کہ مریم، حمزہ، بلاول ہماری موروثی سیاست کے وہ انوکھے لاڈلے ہیں جو پیدا ہوتے ہی ٹافی، چاکلیٹ اور چابی والے کھلونے کی جگہ اقتدار کا چاند مانگنا شروع ہوگئے۔) ماضی قریب کے دورِ اقتدار میں یہ ایک جملہ بھی اکثر سماعتوں سے ٹکراتا رہا کہ ایک عمران خان ایمان دار ہے، باقی تو ہر طرف کرپشن کا میلہ لگا ہوا ہے لیکن ایک درجن پارٹیوں کی تازہ ترین حکومت میں شامل مالیات کے کھوجی پورے ایک مہینے میں خُرد بینوں اور سلوٹ آثار جبینوں کی مدد سے ایک فرح گوگی ڈھونڈ کے لائے ہیں، جس کی بابت سن کے لالہ بسمل نے بولی ماری تھی: بارھیں برسیں کھٹن نوں گھلیا، تے کھَٹ کے لیاندی گوگی لوکاں وچوں کیڑے کڈھدے، جیہڑے آپ ازل دے روگی مرزا مُفتہ کے بقول اس وقت موجودہ حکومت کا سب سے فخریہ کارنامہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے قریب و بعید مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ملک کے اہم ترین دماغوں (جو ایک زمانے میں ایسی ہی حرکت پر الطاف حسین اور اس کی جماعت کے ارکان پر طرح طرح کی پھبتیاں کسا کرتے تھے) کی دھواں دھار میٹنگ بنی گالہ کے کسی سادہ سے ڈرائنگ روم میں چائے کے کورے کپ اور پانچ روپے والے بسکٹ پہ نہیں بلکہ لندن کے قیمتی اور خفیہ ایوانوں میں ہو رہی ہے۔ ہمیشہ دُور کی کوڑی لانے والے کچھ حلقے تو یہ قیاس آرائیاں بھی کر رہے ہیں (جس پہ ہم جیسے حقیقت پسند کم ہی یقین رکھتے ہیں) کہ ملک کے کچھ موقر اداروں نے ایک ضمانتی بھائی کو دوسرے اشتہاری بھائی کی جانب یہ ٹاسک دے کے بھیجا ہے کہ ذرا اس بھولے بابو کو جا کے بتاؤ کہ اب اس پیارے دیس میں کسی نیازی شیازی کی حکومت نہیں بلکہ تمھاری اپنی لاڈلی اور سراسر ذاتی پارٹی برسرِ اقتدار ہے۔ ہو سکے تو چپکے سے کان میں یہ حقیقت بھی پھونک دینا کہ ترلے منت کے آٹھ ہفتے، ڈھٹائی کے تین سالوں سے بہت کم ہوتے ہیں ۔ اب ملک کے ہر گلی بازار میں دودھ اور شہد کی نہریں تو بہنا شروع ہو ہی گئی ہیں، ساتھ ایک خوشی کی خبر یہ بھی دیکھنے سننے کو ملی کہ حال کے وزیرِ اعظم نے عوام کی غربت دُور کرنے کے لیے اپنے تن کا ماس نہ سہی تن کا لباس تو خوشی خوشی پیش کر دیا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ لندن میں عابد شیر علی اور مریم اورنگ زیب کے ذریعے یہ بھی پتہ کروایا جا رہا ہے کہ جب وہاں کی ایک مرحوم شہزادی ڈیانا کے ان دُھلے کپڑے لاکھوں ڈالر میں فروخت ہو رہے ہیں تو ہمارے زندہ وزیرِ اعظم کی صاف ستھری وردی کا کیوں مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس وقت گلی محلوں میں ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اپنے وزیرِ اعظم تو دوبارہ اپنے برادر ملک سعودی عرب میں جا کر انھیں، ان کے فوری امداد پر غور کرنے ولا وعدہ یاد کرانے کا عزم رکھتے تھے لیکن ان کے ساتھیوں نے ماضی قریب کے ناخوشگوار تجربے کی بنا پر یہ اسائنمنٹ مولانا طاہر اشرفی کو سونپ کر لندن جانے پہ اصرار کیا، بقول اکبر الٰہ آبادی: سِدھاریں شیخ کعبے کو ، ہم انگلستان دیکھیں گے وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے حکیم جی کو نجانے ہمارے لیڈران کے لندن بشرف ہونے کے اس اعزاز پہ کیا موت پڑی ہے جو اِن دنوں ہر چھوٹی بڑی محفل میں اس طرح کے شعر پڑھتے پائے گئے ہیں: ایک اِک قطرہ عرقِ ندامت،دو دو ماشے غیرت کے شرم سے آنکھیں جھکی پڑی ہیں منھ بھی کھلے ہیں حیرت کے پھر اکیلے حکیم جی ہی نہیں اپنے لالہ بسمل بھی محترم زرداری کے سفیرِ خاص جناب بلاول اور عزت مآب وزیرِ اعظم شہباز شریف کی لندن یاترا کے بعد ان کے عظیم لیڈر نواز شریف سے مکالموں کی اختر شیرانی مرحوم کے اسلوب میں اس طرح ترجمانی کرتے پائے گئے ہیں، جس کے چند بند ہم آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتے ہیں: او دیس سے آنے والے بتا آوارۂ غربت کو بھی سنا کیا اب بھی وہاں کے زاغ و زغن ووٹوں سے جتائے جاتے ہیں کیا اب بھی وہاں کے حاکم سب بزنس کو چلائے جاتے ہیں کیا اب بھی وہاں کے دفتر کے ریکارڈ جلائے جاتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا