اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے خیبر پختونخوا میں فوج کو انتظامی اختیارات دینے کے بارے قانو ن سے متعلق کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بتائے کہ جب صوبائی اسمبلی نے ایکٹ کے ذریعے سابقہ اقدامات کو تحفظ دیدیا تھا تو پھر صدارتی آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا۔چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسا تو نہیں کہ پاٹا اور فاٹا کے حوالے سے پہلے جو کچھ کیا گیا وہ غیر قانونی تھا اس لئے غلطی کو درست کرنے کے لئے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس مجریہ 2019جاری کیا گیا؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کوئی تو وجہ ہوگی ،یہ آرڈیننس گیم چینجر ہے ،ہمیں بتائیں پچیسویں آئینی ترمیم کے بعد فاٹا اور پاٹا سے کیسے نمٹا گیا اور آرڈننس کیوں جاری ہوا ،ورنہ گڑ بڑ بہت ہے ۔جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا حکومت کے پاس ان کے غیر ریاستی عناصر ہونے کے شواہد ہیں؟اگر ایسا ہے تو پھر ان کے بنیادی حقوق ختم ہوجاتے ہیں۔ پانچ رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا حراستی مراکز میں ان کے اہلخانہ کو تفصیلات بتائی جاتی ہیں، میڈیا میں آنے والی تمام شکایات غلط نہیں، بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں فی الحال اہلخانہ سے نہیں ملاسکتے ،قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ حراستی مراکز غیر آئینی نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا اگر اہل خانہ کی ملاقات ہوتی ہے تو زیر حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ کاغذوں میں تو آپ نے بہت اچھی چیزیں دکھائی ہیں، عملی طور پر کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا الگ چیز ہے ، عدالت کے سامنے سوال حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا ہے ، یہ جائزہ نہیں لینا کہ حراستی مراکز درست کام کر رہے ہیں یا نہیں، عدالت نے صرف حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے ، ہو سکتا ہے ملک بچانے کے لئے نظریہ ضرورت کے تحت حراستی مراکز بنائے گئے ہوں۔اٹارنی جنرل نے کہا فوج ان افراد سے لڑ رہی ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے گھسے ،قانون سازی کے ذریعے فاٹا اور پاٹا میں پہلے سے رائج قوانین کو جاری رکھا گیا ۔جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کیا آپ 25 ویں ترمیم کو چیلنج کر رہے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ تسلیم کر رہے ہیں حراستی مراکز غیر آئینی ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے کسی قانون کو ختم نہیں کیا گیا۔کیس کی سماعت بدھ بیس نومبر کو ہوگی۔