آج کالم کا آغاز گلزار کی اس نظم سے کرتے ہیں: ’’کتابیں جھانکتی رہتی ہیںبند الماری کے شیشوں سے بڑی حسرت سے تکتی ہیں/مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں/جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیںاب اکثر/گذر جاتی ہیں ’’کمپیوٹر‘‘ کے پردوں پر/بڑی بے چین رہتی ہیں /انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے/بڑی حسرت سے تکتی ہیں/جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔/کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے/وہ قدریں اب نظر آتیں نہیں گھر میں/جو رشتے وہ سناتی تھیں/وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں/کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے/کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں/بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ الفاظ/جن پہ اب کوئی معنی نہیں اگتے/بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔/جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں/گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا/زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا/اب انگلی کلک کرنے سے بس اک/جھپکی گذرتی ہے۔۔۔۔۔!!‘‘ یہ ادھوری نظم ہے مگر پوری نظم ہے۔ کیوں کہ اس نظم میں وہ درد مکمل طور پر موجود ہے جو سائنس کے ساتھ ساتھ ہمارے وجود میں سما چکا ہے۔ یہ نظم کتاب اور کمپیوٹر کے درمیاں مقابلہ کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی۔ شاعر کو معلوم ہے کہ کتاب کے مقابلے میں کمپیوٹر آگے نکل جائے گا ۔ ہم ماضی کے مزاروں میں ماتم کرنے کے قائل نہیں مگر پھر بھی جو کتابی دنیا میں رومانس تھا وہ کمپیوٹر میں کہاں؟میں مانتا ہوں اور کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ کمپیوٹر میں بہت طاقت ہے مگر کتاب میں جو محبت تھی وہ اسکرین میں کہاں؟ کتاب عشق ہے۔ کتاب مشک ہے۔ کتاب ساز ہے۔ کتاب آواز ہے۔ یہ کتاب ہے جس نے دنیا کو اس دور میں جگایا جب دنیا پر شعور کی دھوپ نہیں کھلی تھی۔ کتاب کی اہمیت اس بات سے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ کارل مارکس سے بہت سارے اختلافات رکھنے کے باوجود علامہ اقبال نے صرف اس کی شہرہ آفاق کتاب Das Kapital کی وجہ سے علامہ اقبال نے ان کے لیے لکھا تھا : وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب اقبال فرماتے ہیں کہ ایسا کلیم ہے جو طور پر نہیں گیا۔ وہ ایسا مسیح ہے جس نے صلیب نہیں اٹھائی۔ وہ پیغمبر نہیں ہے مگر اپنے بغل میں وہ ایک کتاب ضرور لے آیا۔اصل بات کارل مارکس نہیں۔ اصل بات کتاب کی ہے۔وہ کتاب تھی جس کی وجہ سے دنیا کو دستور ملا۔ وہ کتاب تھی جس نے جماعت اسلامی کو بہتے ہوئے فولادی دھارے میں تبدیل کیا۔ وہ کتاب تھی جو نہ رہی تو جماعت جیسی پارٹی چند خاندانوں کا مجموعہ بن گئی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب جماعتوں کے رہنما کتابیں لکھا کرتے تھے اور اب جماعتوں کے لیڈران کتابیں تو کیا کالم بھی نہیں پڑھتے۔ اس صورتحال کے پیش نظر جون ایلیا نے کیا غضب کا شعر لکھا تھا: زوال حال کے دن ہیں کوئی کمال کرو کتاب اس زوال کو کمال میں تبدیل کرسکتی ہے۔ وہ کتاب جس کے لیے امریکہ کے مشہور مفکر تھورو نے لکھا تھا ’’پرانا کوٹ پہنو اور نئی کتاب پڑھو‘‘کتاب اور ہمارا رشتہ کس طرح ٹوٹا؟ ہم کتابوں سے روٹھے یا کتابیں ہم سے روٹھ گئیں؟ اس پر ایک شاعر نے لکھا ہے: ’’وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا/اب اس کا حال بتائیں کیا/کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں/اب سچا شعر سنائیں کیا؟‘‘ جس طرح محبوب صرف جسم نہیں ہوتا۔ جس طرح محبوب صرف لب و رخسار نہیں ہوتا۔ جس طرح محبوب صرف نام اور کلام نہیں ہوتا۔ اسی طرح کتاب صرف چند کاغذات کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ کتاب کا ایک وزن ہوتا ہے جو انسان اپنے شعور کے کندھوں پر محسوس کرتا ہے۔ کتاب میں خوشی سے زیادہ غم ہوتا ہے۔ کتاب میں ایک ترنم ہوتا ہے۔ کتاب تو اس خط کی طرح ہوتا ہے جس کا مقابلہ ایس ایم ایس یا ای میل سے نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کتاب کبھی ایک کہانی ہوتی ہے اور کبھی ایک داستان ہوتی ہے۔ جس نے بھی الف لیلہ ولیلہ کتاب پڑھی ہے وہ جانتا ہے کہ ایک کہانی سے دوسری کہانی کا جنم کس طرح ہوتا ہے؟دنیا کو تبدیل کرنے میں جو کردار کتابوں نے ادا کیا ہے وہ کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ ہم نے کتابوں سے رشتہ توڑا اور تبدیلی کی کہانی رک کر ٹھہر گئی۔ فیض احمد فیض نے لکھا ہے: ’’ٹھہر گئی آسماں کی ندیا/وہ جا لگی ہے افق کنارے/اداس رنگوں کی چاند نیا/اتر گئے ساحل زمیں پر/سبھی کھویا، تمام تارے/اکھڑ گئی سانس پتیوں کی/چلی گئی اونگھ میں ہوائیں/گجر بجا حکمِ خامشی کا/تو چپ میں گم ہوگئیں صدائیں/سحر کی گوری کی چھاتیوں سے/ڈھلک گئی تیریگی چادر/اور اس بجائے/بکھر گئے اس کے تن بدن پر/نراس تنہائیوں کے سائے/اور اس کو کچھ بھی خبر نہیں ہے/کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے/کہ دن ڈھلے شہر سے نکل کر/کدھرکو جانے کا رخ کیا تھا/نہ کوئی جادہ نہ کوئی منزل/کسی مسافر کو اب دماغ سفر نہیں ہے/یہ وقت زنجیر روز شب کی/کہیں سے ٹوٹی ہوئی کڑی ہے/یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے‘‘ ہم اس وقت میں جینے کی سزا بھگت رہے ہیں جس وقت کی کوئی منزل نہیں۔اس وقت سے ہمیں کوئی راستہ تلاش کرنا ہے۔ وہ راستہ کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟ وہ راستہ ہمیں ان کتابوں سے مل سکتا ہے جو کتابیں الماریوں اور شیلف میں پڑی بند آنکھوں سے ہمیں دیکھتی رہتی ہیں۔وہ کتابیں ہمارا کردار بہتر بنا سکتی ہیں۔ وہ کتابیں ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں۔ جب تک کتابوں سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال نہیں ہوگا تب تک میں ان ستاروں اور سیاروں کی طرح خلاؤں میں بھٹکتے رہیں گے جو سیارے اور ستارے اپنے مرکز سے ٹوٹ کر محور سے نکل جاتے ہیں۔