منہ زور میڈیا اور پروردہ بیوروکریٹس‘ تحریک انصاف کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کوپانچ برس تک سکھ کا سانس لینے دیں گے؟ سوشل میڈیا نے ہیجان بپا کر رکھا ہے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس کی پیروی پرمجبور ہے۔ اتفاق سے تحریک انصاف کا پڑھا لکھا سپورٹر سوشل میڈیا سے متاثر ہے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا مسابقت کے شوق میں سوشل میڈیا پر موجود ہر رطب و یابس کو آگے بڑھانے کا خوگر۔ کیا قصور وار صرف پروردہ بیوروکریسی اور منہ پھٹ صحافت ہے یا تحریک انصاف کی قیادت بھی برابر کی ذمہ دار ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان نے مناسب ہوم ورک کے بغیر عوام بالخصوص اپنے سپورٹرز اور میڈیا کی توقعات میں اضافہ کیا۔ یہ سوچنا کسی اور کا نہیں تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کا فرض تھا کہ تیس پینتیس سال تک ملک بالخصوص پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دسترخواں سے فیضیاب ہونے والی بیوروکریسی ایک ایسی حکومت کو خوش دلی سے گوارا نہ کرے گی جو کرپشن کے خاتمے اور میرٹ کا نعرہ لے کراقتدار میں آئی اور جس کے وزیراعظم کا دستر خواں وسیع ہے نہ قومی خزانے کو بے دردی سے لٹانے کی عادت پختہ، حلف برداری سے قبل عمران خان کو فراغت کے جو دو تین ہفتے ملے ان میں تحریک انصاف کے ایجنڈے سے ہمدردی رکھنے والے صرف ارباب شہزاد پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے خیر خواہ ‘ سابق اور حاضر سروس بیوروکریٹس مثلاً اوریا مقبول جان‘کی مدد سے اہل، لائق، ایماندار اور پرعزم افسران کی فہرست مرتب کرلینی چاہیے تھی جنہیں حلف برداری کی شام اہم وفاقی و صوبائی پوسٹوں پر تعینات کیا جاتا۔خاور مانیکا کے واقعہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کے دورہ پاکپتن کے موقع پر شہر کی بندش کے پروپیگنڈے سے یہ اندازہ ہوا کہ سابقہ حکمرانوں کے وفادار سرکاری افسر و اہلکار موجودہ حکومت کو بدنام اور ناکام کرنے کے لیے کس حد تک جاسکتے ہیں لیکن قصور وار یہ افسر و اہلکار نہیں ‘وہ ہیں جو ابھی تک انہیں تبدیل کرسکے نہ ان کی شرارتوں کا تدارک۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پاکپتن جانے اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری دینے کے لیے منگل کے روز اور دوپہر کا وقت کیوں منتخب کیا؟ اس سے پہلے انہوں نے کبھی حاضری دی؟ کیا اتوار اور پیر کی درمیانی شب رات کو دس گیارہ بجے کے بعد یہ حاضری مناسب نہ تھی؟ پھر بھی پولیس اور انتظامیہ دورے کو تماشہ بناتی اور میڈیا بات کا بتنگڑ بنانے میں کامیاب رہتا؟ ہرگز نہیں۔ یہی حال عمران خان کے ہیلی کاپٹر میں سفر کا ہے۔ وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ آمد ورفت کے لیے کبھی کبھار ہیلی کاپٹر کا استعمال غلط ہے نہ قومی وسائل کا ضیاع۔ بذریعہ سڑک وزیر اعظم کی آمدورفت صرف سکیورٹی کے مسائل پیدا نہیں کرتی‘ خلق خدا کے لیے اذیت کا باعث بنتی ہے مگر سادگی اور کفائت شعاری کے اعلانات کے بعد اس سفر کی ضرورت اور افادیت سے عوام اور میڈیا کو آگاہ کرنا خان صاحب کے میڈیا مینجرز کی ذمہ داری نہیں؟ خاور مانیکا اور ڈی پی او رضوان گوندل کے معاملے میں حکومت کے علاوہ پنجاب پولیس کی قیادت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اب تک حاصل معلومات کے مطابق غلطی مقامی پولیس اور رضوان گوندل کی تھی۔ اعلیٰ سرکاری افسر‘ سابقہ وفاقی وزیر محمد احمد خان مانیکا کے صاحبزادے‘ نون لیگی ایم این اے رضا مانیکا کے بھائی خاور مانیکا اپنے تعارف کے لیے سابقہ بیوی کے محتاج ہیں نہ پاکپتن اور ساہیوال کی پولیس کے لیے اجنبی۔مگر پہل کر کے رضوان گوندل سوشل و الیکٹرانک میڈیا پرچھاگئے اور عمران خان کے علاوہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی خوب گت بنی ۔اگر رضوان گوندل کو او ایس ڈی بنانے سے پہلے انکوائری کرائی جاتی؟ انکوائری رپورٹ میڈیا کو جاری ہوتی اور خاور مانیکا میڈیا پر آ کر اپنا موقف بیان کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ میڈیا اس واقعے کو منفی رنگ دے پاتا۔ جو لوگ عمران خان کے مخالف اور شریف خاندان کے حامی ہیں وہ تو پھر بھی کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکال لیتے مگر عمومی تاثر مختلف ہوتا۔ تحریک انصاف کے حامی اپنی ان غلطیوں کا ملبہ میڈیا پر ڈال سکتے ہیں نہ اسے مخالفین کا پروپیگنڈا قرار دے کر رد کرنا آسان ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اب یہ بات پلے باندھنی پڑے گی کہ وہ حکومت میں ہے اور اپنے دعوئوں اور وعدوں کی اسیر۔ عمران خان نے تو نواز شریف حکومت کو ایک سال بعد دھرنے کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی مگر شریف برادران انہیں ایک دن کی مہلت دینے کے روادار نہیں‘ یہ صرف سیاست اور اقتدار کی جنگ نہیں مسلم لیگ ن کے بیشتر رہنمائوں اور ان کے صحافتی حواریوں کے لیے زندگی‘ موت کا مسئلہ ہے ۔حکمرانی ان کے لیے منافع بخش کاروبار ہے‘ اگلی کئی نسلوں کا معاشی مستقبل سنوارنے اور سادہ لوح عوام کو غلام بنائے رکھنے کا بہترین ذریعہ‘ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ رہا میڈیا تو وہ منقسم ہے اور منقسم رہے گا۔ بجا کہ بعض معاملات میں میڈیا جلد بازی کا شکار ہے وہ عمران خان کو سو دن دینے کے لیے تیار نہیں‘ لیکن اگر تحریک انصاف کے رہنما تقرر‘ تبادلوں‘ فیصلوں اور اقدامات میں احتیاط کا مظاہرہ کریں‘ سادگی اور کفایت شعاری کے دعوے اور پندرہ پندرہ بیس بیس گاڑیوں کے قافلے ‘ دس دس ڈشوں کے ظہرانے اور عشائیے مخالف میڈیا کو موقع تو فراہم کریں گے۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شریف خاندان نے میڈیا پر بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔عمران خان کی طرف سے صوابدیدی فنڈز کے خاتمے‘ بیرون ملک دوروں میں مختصر وفود اور سرکاری تقریبات میں چائے بسکٹ کے اعلانات کے بعد سرکاری خرچ پر موج اڑانے‘ صوابدیدی فنڈز سے بنک اکائونٹس میں اضافہ کرنے اور بیرونی دوروں سے اپنے رفقاکار کے علاوہ بیورو کریسی پر رعب جمانے والے اہل قلم و کیمرہ سے یہ توقع عبث ہے کہ کسی کے میڈیا سیل کی ہاں میں ہاں نہیں ملائیں گے۔ تحریک انصاف کے کارکن اور خیر خواہ اپنی قیادت کے فیصلوں اور اقدامات کا موازنہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ کرنے کے بجائے ان اعلانات اور دعوئوں سے کریں جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے حوالے سے عمران خان نے کیے اور توقعات کو مائونٹ ایورسٹ سے بلند کر دیا۔ اگر حکومت اپنی ٹیم کے انتخاب اور بیورو کریسی کی چھان بین میں کمزوری اور میڈیا مینجمنٹ میں ناتجربہ کاری دکھاتی ہے تو قصور کس کا؟ وزیراعلیٰ کی آمد پر اگر ماضی کی طرح کاروبار اور سڑکیں بند‘ عوام کی آمدو رفت متاثر ہوتی ہے اور ایک وزیر شاہانہ قافلے کے ساتھ فیصل آباد وارد ہوتے ہیں تو آپ کس کس کی زبان بند کریں گے اور کوئی میڈیا چینل کتنی دیر اس خبر کو روکے گا۔ رہی بات عمران خان کو بہرصورت ناکام دیکھنے کے خواہش مندوں کی تو وہ پاکستان میں دودھ شہد کی نہریں بہانے کی صورت میں بھی اسے معاف نہیں کریں گے۔ اگر عمران خان وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ تک خود اُڑکر چلے جائیں تو پھر بھی انہیں شکائت ہو گی کہ ٹیڑھا اُڑے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نواز شریف اور زرداری کی کرپشن کبھی بری لگی نہ ان کی آل اولاد کو ملنے والے پروٹوکول پر غصہ آیا اور نہ لاہور سے مری بذریعہ ہیلی کاپٹر لے جائی جانے والی حلیم‘ نہاری اور بریانی کی دیگیں دیکھ کر رائے بدلنے کی توفیق ہوئی مگر عمران خان کے وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ تک ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر اعتراض ہے گویا وزیر اعظم کو کسی ضروری میٹنگ کے لیے بنی گالہ جانا ہو تو وہ چنگچی رکشہ پکڑیں یا کرائے پر سائیکل منگوا کر پیڈل مارتے گھنٹی بجاتے چل پڑیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اسلام آبادسے لاہور آتے ہوئے اگر ہوائی جہاز کی سہولت میسر ہے تو وہ بیوی بچوں کو ساتھ بٹھانے کے بجائے انہیں پانچ ہزار روپے کا نوٹ پکڑائیں کہ میں جا رہا ہوں آپ لوگ ڈائیوو بس یا فیصل موورز پر بیٹھ کر آ جائیں تاکہ ہمارے سیاسی مخالفین اور ان کے کاشتہ برداشتہ اہل صحافت کو اعتراض نہ ہو‘‘ حکومت اپنی کمزوریوں اور غلطیوں پر قابو پائے مگر اہل قلم و کیمرہ کو بھی صبر و تحمل اور ذمہ داری و بردباری زیبا ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں اگانے کی خواہش کہیں اظہار رائے کی آزادی کے لیے وبال نہ بن جائے اور مادر پدر آزادی کی سزا ملک و قوم کو بھگتنی پڑے۔ پاکستان میں عدم استحکام‘ افراتفری اور اداروں کے مابین بے اعتمادی امریکہ‘ بھارت اور ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا مخصوص مفاد پرست گروہ کی خواہش ہو سکتی ہے قوم کی نہیں ؎ آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ