قارئین گزشتہ روز سوشل میڈیا چار گھنٹے تک بند کر دیا گیا‘ ویسے یہ تو اچھا ہی ہوا اس بندش کی ٹائمنگ بڑھا دیں کہ ویسے بھی متبرک مہینہ ہے لوگ کچھ اللہ توبہ ہی کر لیں۔ حکومت کے لئے بھی آسودگی کہ لوگوں کی تنقید سے بچے رہے گی۔ایک دوسرے پر جس طرح سے رقیق حملے ہو رہے ہیں کہ شیطان فتح کے شادیانے بجاتا ہو گا کہ اگرچہ وہ ماہ صیام کے باعث قید کر دیا گیا ہے مگر اس نے بندوں کی ایسی تربیت کر دی ہے کہ وہ پورا مہینہ اسی گڈول پر گزار دیں گے۔ میں نے مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس سنی اور سنتا ہی رہ گیا کہ انہوں نے نا لائق سے لے کر گھٹیا تک ہم معنی الفاظ کی باقاعدہ ایک طویل فہرست بنا رکھی تھی اور وہ ہر دو جملوں کے بعد وہ فہرست ٹیپ کے جملے یا مصرعے کی طرح دہراتی تھیں۔ شہزاد اکبر کو تو انہوں نے ٹائوٹ قرار دیا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ بات مغلظات تک نہ آ جائے‘ اگرچہ اس کا ٹریلر ہم روحیل اصغر کی تقریر میں دیکھ بھی چکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی جیسے نرم خو بھی کھلنے لگے ہیں۔ ظاہر یہ ادب تو نہیں کہ کوئی کہدے: کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کہ بدمزہ نہ ہوا دوسری طرف شہزاد اکبر میاں برادران کے محل پر چڑھائی کرنے نکلے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جاتی امرا میں 839کنال حکومتی اراضی ہے اور انتقال نہیں ہو سکتی۔ رائے ونڈ محل کا اصل نام موضع مانک ہے۔ رانا ثناء اللہ نے دلچسپ بیان دیا ہے کہ شہزاد اکبر کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ پاکستان کا نام نقشے پر نہیں۔ یاد آیا کہ درسی کتب میں غلط نقشہ چھاپنے پر اب 5سال قید کی سزا ہو گی۔ اس ساری صورت حال کے بعد حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن ساتھ نہیں بیٹھتی۔بہرحال سعد رضوی نے تو بہت اچھا پیغام دیا ہے کہ تحریک لبیک والے اپنے گھروں کو چلے جائیں اور ریاست سے مت ٹکرائیں۔آپ یقین کیجیے کہ مولانا فضل الرحمن کی ایک بات نے مجھے بہت متاثر کیا کہ غیر مسلم طاقتوں کا یہ ایجنڈا ہے کہ مذہبی طبقے کو بھڑکا کر حکومت سے لڑا دیا جائے اور انہوں نے اپنے مدرسے کے طالب علموں کو اشتعال سے بچا کے رکھا معتدل رہنے کی تربیت کی اور احتجاج جو کہ پرامن ہو ان کا جمہوری حق ہے۔ آپ میری طرح ان سے لاکھ اختلاف کریں مگر ان کی بات ملک قوم کے لئے سود مند ہے۔ بعد پروانے کے یہ راز کھلا ہے کس پر شمع جلنے کے لئے ہے کہ جلانے کے لئے کہیں آپ یہ نہ خیال کر لیں کہ میں نے یہ شعر بے محل ہی استعمال کر لیا۔جناب غور کرنا آپ کا کام ہے ‘ بات کو پھینکئے گا نہیں۔ ماحول کو روشن تو شمع ہی کرتی ہے اور پگھلتی چلی جاتی ہے مگر منظر تو پروانے ہی سے بنتا ہے روشنی کی قدر تو وہی کرتا ہے۔ اندھے اور روشنی سے نابلد لوگ اس محبت اور وارفتگی کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس شمع اور پروانے کا ادراک جو کر لیتے ہیں تو وہ کسی بھی طاقت سے نہیں ڈرتے۔انہیں دنیا والے سمجھ میں نہیں آتے۔ عشق کی بازی بھی عجیب ہوتی ہے میں اس بیان کو دراز نہیں کروں گا کہ کہیں صاف ہی نہ لکھ جائوں۔ ہم تو ہر اچھی شے سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔ اب حکومت نے دو مرتبہ ڈیڑھ ڈیڑھ روپے جو پٹرول سستا کیا ہے تو یہ ہمیں تیار کیا جا رہا ہے کہ بہت جلد ہم پربرق گرائی جائے گی۔ یہ بھی کوئی معلوم نہیں کہ پٹرول ہی یک مشت بڑھا کر سارا حساب برابر کر دیا جائے۔ دیکھیے کالم نگار ہونے کی نہیں ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ حکومت سے کم سے کم وہ سوال ضرور کروں جس میں لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔ میں نے یہ سوال ڈاکٹر محمد امجد سے کیا جو پمز کے پرنسپل ہیں اور معروف سرجن کہ جناب یہ Remdesivirانجکشن سرکاری ہسپتالوں میں کیوں بند کیا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ ریکمنڈڈ نہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے طور پر درست کہہ رہے تھے مگر سوال تو یہی ہے کہ پہلے یہ لگایا جا رہا تھا۔ میں نے نیٹ پر جا کر پوری تفصیل جان کر حیران ہوا کہ یہ انجکشن جو 2009ء میں بنایا گیا تھا۔ مقصد تو اس کا اور تھا مگر یہ کورونا کے ابتدائی مریضوں پر انتہائی کارگر ہے اور یہ اس وائرس کی گروتھ روک دیتا ہے۔ انڈیا میں انجکشن لاکھوں میں بنایا جا رہا ہے اور وہاں اس کی مارکیٹ قیمت 225روپے ہے یہاں یہ پرانے ریٹ سات یا آٹھ ہزار میں دستیاب ہے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ غریب بے چارہ کیا کرے گا۔ڈاکٹر محمد امجد نے یہ تو بتایا کہ کورونا کے مریضوں سے وارڈ بھرے ہوئے ہیں مگر اس ٹیکے حوالے سے وہ بات گول کر گئے۔ کیا کریں گورنمنٹ ملازم ہیں۔ جناب ہم اس کے لئے چندہ دے سکتے ہیں۔ خدارا اس انجکشن کا بندوبست کروائیں۔ اس سے پہلے کینسر کی دوائیاں بند کی گئی تھیں مگر امجد صاحب نے بتایا کہ اس میں تو بہتری آ گئی ہے چلیے اچھی بات ہے: تم ہی اگر نہ سن سکے قصۂ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے اچھی بات ہے کہ ان دنوں رات تراویح میں بہت ہی ایمان افروز منظر ہوتا ہے۔ مسجدیں بھری ہوئی ہیں۔ ایس او پیز کا خیال نمازی رکھتے ہیں۔ اصل تو یہی ہے ۔اپنے مالک کے دربار میں کھڑے ہو کر اس کا کلام سننا۔ سحری کرنا اور پھر روزے کے ساتھ تو شام کرنا۔ تو صاحبو!جہاں تک روزوں کا سوال ہے تو ٹھنڈے موسم میں پتہ ہی نہیں چلتا حالانکہ روزے کو کچھ تو لگنا چاہیے۔ دن کے وقت قرآن مجید پڑھا جا رہا ہے میں تو سوا سپارہ ترجمے کے ساتھ گھر سے پڑھ کر جاتا ہوں۔ ایک کوشش ہے کچھ سمجھنے کی۔ تراویح کے بعد گھر آتے ہیں تو بچے لوگ کرکٹ شروع کر دیتے ہیں۔ خدا کی پناہ ان کا شور شرابا کہ دن کے وقت تو یہ فتنہ سویا ہوتا ہے کہ سکول و کالج بند ہیں۔اب بھی کچھ معلوم نہیں میرا بیٹا بڑے وسوخ سے کہہ رہا تھا کہ مشکل ہے۔۔ انہوں نے باقاعدہ ایک خالی پلاٹ میں مستقل بنیادوں پر پچ تیار کر لی ہے۔ محلہ گونج رہا ہوتا ہے۔ اب بچوں کو کیا کہا جائے۔ وہ کہیں گے کہ آپ نہ سکول بھیجتے ہیں اور نہ کھیلنے دیتے ہیں۔ کچھ بچوں کو فائدہ بھی ہوا ہے کہ آن لائن کے بہانے خوب خوب اپنی گیمیں کھیلتے رہتے ہیں۔ ماں سمجھتی ہے کہ بچہ آن لائن پڑھ رہا ہے مگر وہ تو کب کا آف دی لائن مزے لے رہا ہے۔ ویسے مسلسل آن لائن سے بچے اکتا بھی جاتے ہیں۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ کورونا کا زور ٹوٹ جائے۔ بعض دوست تو یہاں بھی بزلہ سنجی سے باز نہیں آتے۔ اقتدار جاوید ہمارے بہت ہی سینئر صحافی ہیں کہتے ہیں کہ فکر نہ کر 2023ء میں بھی ایک آٹھویں لہر آئے گی اور الیکشن نہیں ہونگے آخر میں ندیم ملک کا پیارا سا شعر: پرانی دھن میں نیا گیت گانے لگ جائوں تو کہے رو تو میں ہنستے ہوئے رونے لگ جائوں