عید کا تیسرا دن لاہور کی گلیوں میں بلا مقصد گھومنے کا ارادہ تھا۔ لگ بھگ 11بجے آصف مجھے لینے آ گیا۔آصف موسیٰ میرا سکول کے زمانے کا دوست ہے‘ ایک لائق طالب علم جس نے میٹرک کے بعد یہ کہہ کر پڑھائی چھوڑ دی کہ یہ کتابیں میری صلاحیتوں کو زنجیر ڈال رہی ہیں۔ آصف نے اپنا فیصلہ درست ثابت کیا۔ہم جب بی اے کر رہے تھے تو وہ راٹ آئرن فرنیچر کا کام جما چکا تھا۔اگلے دو سال میں شارجہ چلا گیا۔وہاں اپنا کارخانہ لگایا۔اب یورپ میں ڈیپارٹمنٹ سٹور کی چین اور شارجہ میں فرنیچرکا بزنس چلا رہا ہے۔ اس نے مدت بعد لاہور میں عید منائی۔ انسان جن گلیوں میں کھیلا ہو وہاں بار بار جاتا ہے‘ آصف نے گاڑی ٹائون شپ میں اپنے پرانے گھر کی طرف موڑ لی۔ میں سمجھا کسی محلے دار سے ملنا ہو گا۔وہاں اس کے محلے دار دوستوں سے میں واقف ہوں‘سب کے گھروں کے سامنے رکنے کی بجائے گاڑی سست روی سے گزرتی رہی۔ ایک موڑ پر بریک لگ گئی‘ تھوڑی دیر گاڑی واپس موڑنے کے بہانے وہ آہستہ آہستہ سٹیرنگ گھماتا رہا۔ میں جان گیا یہاں کسی کے نقش ہیں۔ ٹائون شپ مارکیٹ میں معمول کے دنوں میں رکشہ تک نہیں گزر سکتا ۔اب لینڈ کروزر آرام سے چل رہی تھی‘ ڈاکخانے والی سڑک پر کسی زمانے میں بسیں چلا کرتی تھیں اب ریڑھیوں کا قبضہ ہے۔ پھل والے ‘ سبزیوں والے۔ماڈل ٹائون مجھے پسند ہے۔ سکول اور کالج کے دنوں رات کو اکیلے سائیکل لے کر میں یہاں گھومتا رہتا۔ اندھیری‘ کم اندھیری سڑکوں پر میں سایہ بن جاتا اور روشن سڑک پر آ کر جیتا جاگتا کردار۔ ماڈل ٹائون کی کشادگی‘پیڑ‘ خاموشی اور قدامت انسان کو اسیر بنا لیتے ہیں۔ 1880ء کے لگ بھگ تعمیر یہ علاقہ اب بھی ڈی ایچ اے کو مات کرتا ہے۔ ماڈل ٹائون موڑ پر پہنچتے ہی میں نے آصف کو کلمہ چوک پل سے پہلے بائیں ہاتھ مڑنے کو کہا۔یہ سڑک شاکر علی میوزیم اور ہیومن رائٹس کمشن کے دفتر کی طرف جاتی ہے۔یہ گارڈن ٹائون کا ٹیپو بلاک ہے۔ ’’یہاں تو ہمارا سکول نہیں‘‘۔میں نے کہا :ادھر ہی جانا ہے۔بائیں ہاتھ مڑنے کے ایک منٹ بعد ہم دائیں مڑ گئے۔اس سڑک پر میں تیس سال کے بعد آیا۔ دائیں مڑتے ہی نکر والے گھر میں لگا املی کا بڑا سا پیڑ اب نہیں تھا۔ سکول کے ساتھ کھلے میدان میں ہمارے کلاس فیلو ریاض کی ڈیڑھ دوسو بھینسیں تھیں‘اب یہاں چار دیواری کر دی گئی تھی۔شاید یہ اب پاکستان لا کالج کا حصہ ہے۔سکول کے دروازے پر بریک لگائی۔ چھٹیوں کی وجہ سے دروازہ بند تھا۔گیٹ کے اوپر سے نظر آ رہا تھا کہ کھلی جگہ ختم کر کے وہاں کمرے تعمیر کر دیے گئے ہیں۔یہ سکول برکت مارکیٹ کے سامنے واقع گائوں جیون ہانہ کے گوجروں کی تنظیم نے قیام پاکستان کے وقت تعمیر کیا تھا۔سکول کے دوسری طرف مین فیروز پور روڈ پر دھوبی بلڈنگ ہے۔ زیادہ تر طالب علم جیون ہانہ اور دھوبی بلڈنگ سے ہوتے‘ ہم جیسے چند ہی تھے۔’’یہاں ایک پارک بھی تھا‘‘ آصف نے یاد دلایا۔ہاں !میں نے اسے دو تین موڑ کاٹنے کے بعد پارک کے سامنے لاکھڑا کیا۔بچپن میں یہ پارک کافی بڑا معلوم ہوتا۔سرو کے پودے راستوں کے دونوں جانب ایستادہ ہوا کرتے۔گھیسی(سلائیڈ) پینگ ‘ گھومنے والا جھولا۔ایک حصے میں ہوا کرتے۔باقی میں ہموار گھاسی قطعات ،اب جھاڑ جھنکاڑ بنا ہوا تھا‘ دل خراب ہو گیا۔چیزیں بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہو رہی ہیں۔ گارڈن ٹائون سے نیو کیمپس کی طرف روانہ ہوئے۔بھیکے وال موڑ سے اقبال ٹائون میں داخل ہوئے۔پھر گلشن اقبال کا چکر کاٹا۔ہم آٹھویں میں پڑھتے تھے جب اس پارک میں پہلی بار آئے۔اس زمانے کی تصاویر ہم دونوں کے پاس ہیں،دبلے پتلے سے ہم پیرو دکھائی دینے کی کوشش کرتے۔سکیم موڑ سے چوبرجی اور پھر انارکلی کی طرف مڑ گئے۔پرانی انارکلی کی فوڈ سٹریٹ بند پڑی تھی۔کھسے کی دکانوں کے شٹر گرے ہوئے تھے۔اس مقام کو کبھی اس قدر پرسکون نہ دیکھا تھا۔ سیدھے انارکلی میں چلے گئے۔یہاں بھی وہی حالت‘بندہ نہ بندے کی ذات۔ میں نے قطب الدین ایبک کے مزار کی طرف مڑنے کا کہا۔ وہاں چند ساعتیں رکے۔یہ سڑک میوہسپتال اور چوک گوالمنڈی کی طرف جا نکلتی ہے۔بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ فوڈ سٹریٹ میںچند دکانیں اب بھی چنے اور سری پائے والوں کی کھلی تھیں۔یہ لاہور کے کھابوں کا ہیڈ کوارٹر ہے۔میں نے چنے اور آصف نے پائے کا آرڈر دیا۔ساتھ لسی۔ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ سے نکل کر لوہاری کی طرف نکلے‘ بھاٹی چوک سے اردو بازار اور پھر مچھلی منڈی سے گزرے۔ تصور میں بھاٹی دروازے کے دائیں طرف تانگہ سٹینڈ دیکھا ،خیال ٹوٹا تو وہاں بے ڈھب مکانات کھڑے نظر آئے ،ایک دوسرے میں گھسی ہوئی غربت ۔ہر وقت ہجوم کے باعث بھونچال میں نظر آنے والی زندگی ٹھہری ہوئی نظر آتی تھی۔مزار داتا گنج بخش کے سامنے سے گزر کر مینار پاکستان پہنچے، وہاں قلعہ لچھمن سنگھ کے بازار میں آ گئے‘آصف کا خاندان کچھ عرصہ یہاں رہا تھا۔وہ بازار کی حالت دیکھ کر افسردہ ہو گیا۔آگے ایک چوک آیا۔جمیل فخری چوک۔یہ وہی مقام ہے جہاں علامہ احسان الٰہی ظہیر بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے‘نکر کی طویل برآمدے والی عمارت کی دوسری منزل پر مختلف کرائے دار رہا کرتے۔ان میں سے ایک نامور ٹی وی اداکار جمیل فخری تھے۔انہی کے نام سے یہ چوک منسوب ہے۔یہاں سے بادامی باغ فروٹ منڈی کا چکر کاٹا اور پھر واپس راوی روڈ پر آ گئے۔گورنمنٹ کالج کی طرف مڑے ،نیلا گنبد عبور کر کے مال روڈ پے آئے ۔جیل روڈ سے ہم گلبرگ میں داخل ہوئے ۔یہ گلبرگ ماڈل ٹاون جیسا ہی تھا کبھی ۔لبرٹی چوک ،جہاں ملکہ ترنم نور جہاں کا گھر ہوتا تھا اب ایک کثیر المنزلہ پلازہ منہ چڑا رہا ہے ۔لاہور عید کی چھٹیوں میں پرسکون ہے۔کہیں الائشیں دکھائی نہ دیںلیکن شہر کی جو صفائی ضروری ہے اس کی طرف سے مسلسل کوتاہی ہی نظر آئی‘مین سڑکیں ٹھیک ہیں مگر لنک روڈز مرمت چاہتی ہیں۔خاص طور پر بادامی باغ منڈی والی روڈ انتہائی مخدوش ہے۔لاہور کی عمارتوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔یہ شہر لاوارث نظر آیا۔اس شہر پر ہمیشہ غیر مقامی حکمران رہے ،لاہور کا بڑا حصہ رہ گیا، کبھی فرصت ملی تو لاہور کے آثارکو ضروربیان کروں گا ۔