حضرت بابا بلھے شاہؒ کا 263واں سالانہ عرس، جس کا آغاز آج دوپہر کو ہوگا، کے حوالے سے ، تین روز قبل انتظامی اجلاس جاری تھا، کہ معاً ایک درویش میٹنگ روم میں آ دھمکا اوریہ’’ پنجابی آکھان‘‘ یعنی کہاوت، فضاؤں میں مرتعش کر دی : اَندر ہووے سچ/ تے باہر کھلو کے نَچ یعنی جو حق پر ہو، وہ کس طرح دَب سکتا ہے، امام عالی مقام نے بھی کربلاسے یہی پیغام دیا کہ جب جسم موت ہی کے لیے بنا ہے ، پھر حق و صداقت کی خاطر، اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے ۔بہرحال مجذوب کی بات سے پورا ایوان ان حقیقتوں میں کھو گیا۔ کرب وبلا کی یادوں سے لے کر عصرِ رواں کے نوحوں تک ، مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہماری زندگی حق اور حقانیت سے دور بلکہ دور تر ہوتی جا رہی ہے۔ بقول اقبال:’’چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘۔ ہم جھوٹ ،بہتان، کذب بیانی، افترأ پردازی اور دروغ گوئی کے ایسے سوداگر ، حق و باطل، صحیح و غلط ، سچ و جھوٹ کو خلط ملط کرنے کے ایسے ماہر ، کہ ۔الامان والحفیظ۔ اسی مقام پر ہمارے ایک صوفی دانشور نے کہا تھا: کاذب ماحول میں صادق کی زندگی کسی کربلا سے کم نہیں۔ یہی صوفی بیان کرتے ہیں کہ ایک شیخِ طریقت سے اس کے ایک مرید نے ، بڑی چابکدستی اور ملمع سازی سے ’’خرقۂ خلافت‘‘ ہتھیا لیا، اور پھر کسی بستی میں جا اُترا، خانقاہ سازی کے منصوبے اور مرید پھانسنے کے سلسلے، رُو بہ عمل ہوئے، شیخ کو اطلاع ملی کہ بستی کے تمام لوگ اس سے خوش ہیں، شیخ نے اپنے تازہ تازہ وارداتیے خلیفہ کو طلب کیا ، اور خلافت کی واپسی کے احکام جاری کر دیئے۔ خلیفہ صاحب نے ناراضگی کا سبب دریافت کیا، شیخ نے کہا، سُنا ہے کہ بستی کے سب لوگ تجھ سے خوش ہیں۔ مرید نے کہا: ’’آپ کی عطا اور مہربانی ہے‘‘ شیخ نے کہا کہ سب لوگوں کا خوش ہونا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ تم نے حق ترک اور سچ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ حُسن کردار اور حُسن افکارکے بغیر عقیدت مندیوں اور ارادت کیشیوں کا حصول ممکن نہیں۔ جب زندگی عطا کرنے والے نے ، زندگی کے دائرے کو سینچ دیا اور اختتامی خط کو کھینچ دیا ہے ، تو کوئی حادثہ اُسے وقت سے پہلے کیسے ختم کر سکتا اور کوئی علاج یا احتیاط اسے اس خاص ساعت کے بعد بھی کیسے قائم رکھ سکتی ہے۔ جب حیات کا دورانیہ مقرر ہو چکا، تو مقابلہ و موازنہ کیسا، زندگی کا انجام جب موت ہی ہے، تو انکار اور فرار کیونکر۔ دوسری اہم بات۔عزت اور ذلّت، قدر و منزلت ، قبولِ عام اور ذلّت و رسوائی ۔ کوشش کے درجے نہیں ، نصیب کے مقامات ہیں، اگرکسی ’’مہم جوئی‘‘ سے ایسا ممکن ہوتا تو تختِ دمشق سے بڑھ کر ، کوئی اور طاقت اور قوت… حسین اور حسینی افکار کو مٹانے والی نہ تھی، باقاعدہ پالیسی کے تحت محراب و منبر سے اہلِ بیت نبوّت اور خانوادۂ رسالت پر سَبّ و شتم ہوتا تھا،سُنن نسائی کے مصنف امام نسائی ۔عمر ڈھلنے اور ظلم سہنے کے باوجود ،جن کا شخصی رعب، حُسن و خوبی اورمتانت و وقار متاثر نہ ہوا، تواُن پر نبیذ یعنی شراب کا الزام عائد ہوا ، دمشق میں’’خصائصِ علی‘‘تصنیف کی، تو بہتان طرازی اور جبر وستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔مرتبہ شہادت پر پہنچے او رمکہ مکرمہ میں صفا ومروہ کے درمیان دفن ہونے کی خواہش بَر آئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بڑی واضح اور متفقٌ علیہ روایت ہے ، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’مسلمان کو گالی دینا گناہ ، اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے‘‘۔ یعنی بلاوجہ اشتعال اور عدم برداشت، سوسائٹی میں انتہا پسندانہ رحجانات کے فروغ کا ذریعہ ہے، جس سے تشدّد آمیزی پروان چڑھتی ہے اورنفاق، بے اعتمادی اور باہمی ناقدری میں اضافہ ہوتاہے۔ حضرت ابن مسعودؓ ہی سے دوسری روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’مومن دوسرے پر طعن کرنے والا، دوسروں پر لعنت کرنے والا اور بے حیا و بیہودہ گو نہیں ہوتا‘‘۔یعنی فحش گوئی، لعنت و ملامت، طعنہ زنی اور عیب جوئی ۔ منافق اور کافر کی علامات ہیں۔ اگر انسان کی ولادت کے ساتھ ہی شہرت اور گمنامی کے مدارج طے پا چکے اور نیک نامی اور بدنامی کی ساعتیں مقرر ہوگئیں۔ تو فکر مندی کیسی۔ کس ذرے کو کب مہتاب بننا ، اور کس آفتاب کو کب گرہن لگنا ہے۔ اس کا فیصلہ تو ہو چکا ہے۔۔۔ اب مقابلہ بلکہ مجادلہ کس بات کا ؟۔تیسری چیز جس کا تعین ہو چکا۔ وہ ’’رزق‘‘ ہے، کسی کی آزادروی اور آسودہ فکری کو کسی کی جتھہ برداری زوال نہیں دے سکتی۔ یہ فیصلے تو قسّامِ ازل نے روزِ اولین ہی فرما دیئے تھے۔ اگر ایسا ممکن ہونا ہوتا تو کربلا کے بعد کی تاریخ مختلف ہوتی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ محبتیں،عقیدتیں،ارادتیں جہاں نچھاور ہونا تھیں۔وہیں ہوتی رہیں،کشف المحجوب میں اہلِ بیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت داتا گنج بخش ؒ کا پیرایۂ اظہار، شدتِ محبت سے سرشار نظر آتا ہے۔’’باب فی ذکر أئمتھم من أھل البیت‘‘میں سیّدنا حضرت امام حسن،حضرت امام حسین، حضرت امام زین العابدین، حضرت امام ابوجعفر محمد باقر، حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم کا تذکرہ انتہائی جمیل اور بلیغ انداز میںکیا۔ بالخصوص حضرت زین العابدینؓ کے مبارک تذکرہ میں ہشام بن عبدالملک کے اُس واقعہ کا ذکر کیا ہے ، جب وہ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ بیت اللہ کے حج کے لیے گیا۔ استلامِ حجر اسود کے وقت،ہجوم کے باعث اُسے دِقّت کا سامنا ہوا،اتنے میں حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ صحنِ کعبہ میں تشریف لے آئے، رُوئے انور سے چاندی کی مانند روشنی پھیل رہی تھی، رُخسار مبارک نورِ تاباں کا مظہر اور لباس کی عطربیزی سے راستہ مہک رہا تھا۔ آپؓ نے طواف فرمایا اور پھر استلامِ حجر اسود کے لیے بڑھے تو لوگوں نے آپ ؓ کو تشریف لاتے دیکھ کر فی الفور تعظیماً راستہ چھوڑ کر ، دیدہ و دل فرش راہ کر دیا۔ آپؓ بہ آسانی حجر اسود کے بوسہ کے لیے تشریف لے گئے۔ ہشام اور اس کے گرد موجود شامی، مبہوت ہو کر یہ دلکش اور محبت بھرا منظر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے پوچھا : یہ کون ہے ؟۔۔۔ ہشام جانتے ہوئے بھی انجان بن گیا اور خجالت کے عالم میں بولا:’’مَیںنہیں جانتا یہ کون ہے‘‘۔ اتفاقاً عرب کا مشہور شاعر فرزدق وہاں کھڑا تھا، کہنے لگا : ’’ہشام! تو نہ جانتا ہو۔۔۔ مگر مَیں انہیں خوب جانتا ہوں"۔ شامیوں نے کہا : اے ابوالفراس، بتا! یہ کون ہے؟ ۔۔۔ اس پر فرزدق نے برجستہ وہ لامیہ قصیدہ کہا ، جو عربی ادب کے ماتھے کا جھومر ہے، جس کا مطلع ہے: ھٰذَا الَّذِیْ تَعْرِفُ الْبَطْحَائُ وَطَاَتَہ وَالْبَیْتُ یَعْرِفُہ وَالْحِلُّ وَالْحَرَم "یہ وہ ہستی ہے جس کے قدموں کی چاپ کو سرزمین بطحاء پہچانتی ہے اور بیت اللہ اور حِلّ و حرم ان سے واقف ہیں" ہشام کو سخت دِقّت کا سامنا ہوا، فرزدق پر غضبناک ہو کر اُسے مکہ اور مدینہ کے درمیان عسفان نامی کنویں میں قید کر دیا گیا، حضرت زین العابدینؓ کو اطلاع ہوئی ، تو آپ نے بارہ ہزار درہم فرزدق کو ارسال کیے اور فرمایا: ’’ابوالفراس! ہمیں معاف رکھنا کہ ہم لوگ اس وقت امتحان اور ابتلا میں ہیں، اس ہدیہ سے زائد اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا‘‘۔ فرزدق نے وہ درہم نقری، واپس کیے اور عرض گزار ہوا کہ’’ حضور قسم بخدا! مال و دولت کے لالچ میں،امرأ اور بادشاہوں کے لیے بہت کچھ کہہ چکا، مگر وہ دروغ گوئی اور مبالغہ تھا، مگر آپ کی خدمت میں،جو قصیدہ پیش کیا ، محض اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور اپنے گناہوں کے کفارے کے لیے تھا‘‘۔ فرزدق کا یہ پیغام ، جب حضرت زین العابدینؓ تک پہنچا تو آپ نے حکم دیا کہ درہم اُسی کے پاس لے جاؤ، اور اُسے کہو کہ ابوالفراس ! اگر ہمیں دوست رکھنا ہے تو ایسا نہ کر، اس لیے کہ ہم جو چیز کسی کو عطا کر دیں تو پھر واپس نہیں لیتے۔