نجانے پی ٹی آئی کی حکومت خوش فہمی کے کون سے مائونٹ ایورسٹ پر موجود ہے کہ انہیں زمینی حقائق کا اندازہ ہی نہیں ہو رہا۔ ہرحکمران کی طرح جناب عمران خان کے اردگرد بھی خوشامدیوں کا گھیرا موجود ہے۔ لیکن جناب وہ خود تو ذرا زحمت کریں اور خوشامدیوں کے حلقے سے باہر نکل کر دیکھیں تو سہی کہ ان کے دور اقتدار میں پاکستان کا متوسط و سفید پوش اور غریب طبقہ کس طرح زندگی کا جبر سہہ رہا ہے۔ یہ نیا پاکستان ہے جس میں مہنگائی کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ جناب کچھ تو بریکوں پر پائوں رکھیں۔ اس مہنگائی کو کچھ تو لگام ڈالیں آپ کو تو خیر انداز ہی نہیں ہو گا کہ گھر کے اخراجات باورچی خانے کا خرچ کیسے چلایا جاتا ہے۔ آپ کو تو اے ٹی ایم مشینیں میسر رہی ہیں جو بنی گالہ کے کچن سے لے کر کیبنٹ تک سب کچھ چلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن یہ بیچارے غریب غربا عوام‘ ان کو کیا خبر کہ اے ٹی ایم مشینیں ہوتی کیا ہیں۔ یہ تو بے چارے اپنی تنخواہوں میں بمشکل گزارا کرنے والی مخلوق ہیں آمدنی اور تنخواہوں کی ریز گاری میں ریزہ ریزہ زندگی گزارنے والے عوام آئے دن کی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ادھ موئے ہوئے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں مہینے کی پہلی کا بہت چرچا ہوتا تھا۔ یہ پہلی جو واقعی پہلی تاریخ کو آیا کرتی اب سرکتے سرکتے مہینے کی پندرہویں تک آ گئی ہے۔ تبدیل شدہ نئے پاکستان میں تو اس مہنگائی کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں روز ڈالر روپے کو ٹھینگا دکھاتا ہے۔ روپیہ ماتھا ٹیکتا بے قدر ہوتا ہے اور مہنگائی کی ملکہ ساتویں آسمان پر چڑھتی‘ عوام کی بے بسی پر قہقہے لگاتی ہے۔ جیب میں رکھی رقم اور ضرورتوں کے درمیان معکوس تناسب کا رشتہ ہے۔ ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اور آمدنی روز گھٹ رہی ہے۔ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو ان کی پہنچ سے دور کر کے کوئی بھی حکومت معاشی اصلاحات نہیں لا سکتی۔ پی ٹی آئی حکومت کی عوام کی بنیادی ضروریات کی طرف بے حسی اس قدر زیادہ ہے کہ اب حکومت کے سپورٹرز ان کے حق میں کلمہ خیر کہنے کیلئے مناسب الفاظ تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کا پہلا سال ختم ہونے سے پہلے ہی اپنے سپورٹروں کی حمایت کھونا شروع کر دی ہے اور احساس زیاں پھر بھی نہیں۔ کیا عمران خان 22سال کی سیاسی جدوجہد کو اس طرح ضائع ہونے دیں گے۔ اپنے اقتدار کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ہی تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے نہایت اہم سپورٹر تجزیہ کار کھو دیئے ہیں۔ ٹی وی کے ٹاک شوز ہوں‘ یا اخبارات کے کالم۔ سیاسی حالات پر تبصرہ اور تجزیہ کرنے والوں کی رائے یقینا رائے عامہ کو بننے اور کسی شکل میں ڈھلنے میں مدد دیتی ہے۔ عوام کا ایک بڑا حصہ صحافتی دانشوروں کی رائے سن کر‘ یا تحریر پڑھ کر اپنی رائے بناتا ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کی دو دو باریوں کے بعد عمران خان کی سیاسی منظر نامے پر آمد اور خصوصاً کرپشن کے خلاف ایک مضبوط اور ٹھوس نظریے نے سیاسی حالات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کو متاثر کیا اور یقینا پاکستان کے لئے اچھے دنوں کا خواب دیکھنے والے پاکستانیوں کا ایک بڑا حصہ ‘ عمران خان کی سٹیٹس کو‘ ناانصافی اور کرپشن کے خلاف آئیڈیالوجی کو دیکھ کر مسمرائز ہوا۔ عمران خان نے پاکستانی عوام کو ایک نئی امید اور ایک نئی سوچ دی۔ عوام کا سیاسی شعور بیدار کرنے اور اپنے حق کے لئے سوال کرنے کی جرأت مندانہ سوچ دی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنی باریوں پر حکومت کرتی رہیں۔ کرپشن کی انتہا اور عوامی مسائل سے حکمرانوں کی لاتعلقی نے ماحول میں اتنا سیاسی حبس بھر دیا تھا کہ تازہ ہوا کی خواہش ایک فطری بات تھی۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان تیسری بڑی سیاسی جماعت کا تصور پاکستان میں موجود نہ تھا۔ اگرچہ مذہبی جماعتیں بھی ہمیشہ سیاسی عمل میں حصہ لیتی رہیں لیکن وہ ان ہی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے الائنس کے ساتھ میدان عمل میں آئیں۔ الگ سے سیاسی منظر نامے پر کبھی کوئی قابل ذکر ہلچل پیدا نہیں کر سکیں۔ جبکہ تحریک انصاف نے برسوں کے موجود سیاسی منظر نامے کو واقعی ہلا کر رکھ دیا اور اس تبدیلی کی علامت بن کر ابھری جو عوامی خواہشوں کے عین مطابق تھی۔پھر عمران خان کا کرپٹ سیاستدانوں اور مفاد پرست حکمرانوں کو للکارنا‘ دھرنے‘ قومی لٹیروں سے حساب چکانے کا اعلان۔ غریب طبقے کو اوپر اٹھانے کے وعدے غریبوں کے لئے خوشحالی لانے کی بڑھکیں‘ تبدیلی‘ نیا پاکستان‘ دو نہیں ایک پاکستان‘ ریاست مدینہ کے خواب‘ کون تھا جو امیدوں اور خوابوں کے اس سونامی میں بہہ نہ گیا ہو۔ حقیقتاً عوامی توقعات کا ایک دریا سیلاب پر آیا تھا۔ یہ بات کہ عمران خان صرف اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہیں وزن نہیں رکھتی بہرحال عمران خان قوم کیلئے ایک کرشماتی ہیرو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کے مداح پھیلے ہوئے تھے۔ سیاست میں آئے تو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا تو لوگوں کا ان سے توقع باندھنا فطری بات تھی۔ رہی بات ان کی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار تو آج تک کوئی جمہوری حکومت پاکستان میں طاقت کے ’’اصل مرکز‘‘ کی حمایت کے بغیر نہیں آئی۔ یوں تو ہر نئی حکومت سے عوام کی امیدیں اور توقعات بہت ہوتی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی تو ساری الیکشن مہم تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے پر تھی۔ اس حکومت سے عوامی امیدیں بے پناہ تھیں اور حال اب یہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے کا رومانس معدوم ہو چکا ہے۔ نئے پاکستان کے نعرے کا سحر ٹوٹ چکا ہے۔ بجلی پانی پٹرول گیس سب مہنگا۔ دوائیں پہنچ سے باہر۔ غریب جو سرکاری ہسپتال سے کچھ نہ کچھ مفت دوائیں لیتا تھا اب وہ بھی دستیاب نہیں۔ دوائوں کی قیمت میں کئی سو گنا اضافے پر متوسط طبقہ بھی چیخ اٹھا ہے۔ امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور کپتان کا سحر ٹوٹ چکا ہے: وہ جو ایک دنیا بسائی تھی تیرے نام پر کوئی اور تھی یہ جو حسرت درو بام ہے‘ یہ جو زرد رو میری شام ہے کوئی اور ہے!