’’ اَوَدھ پنچ‘‘ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی دیکھا دیکھی پورے ہندوستان سے پنچ اخبار برساتی کھمبیوں کی طرح اُگ آئے۔ اس طرح اُردو کے اولیں مزاح نگار اور صحافی جعفر زٹلّی کے سفاکانہ قتل کی بنا پر برِ صغیر پر ڈیڑھ سو سال سے چھائی اداسی کسی حد تک چھٹنے لگی۔ اس کے علاوہ ریاض خیر آبادی کے ’فتنہ‘اور ’عطرِ فتنہ‘ ، نے بھی تاریک ماحول میں تھوڑی بہت جگمگاہٹ پیدا کی۔ پھر سیالکوٹ کا ’شیخ چِلّی‘ ، میرٹھ کا ’ظریف الہند‘، رام پور کا ’مذاق کا پہلا قدم‘ بھی اپنا لطیف وجود منوانے میں کامران ٹھہرے۔ ، لاہور ہمیشہ سے زندہ دلان کا شہر ہے۔ یہاں سے جاری ہونے والے، تیس مار خاں، جعفر زٹلی، شریر، پاٹے خاں، مُلّا دو پیازہ، ظریف بھی کچھ عرصہ چہکتے، مہکتے، قہقتے رہے۔اسی لاہور ہی سے چراغ حسن حسرت کے ’شیرازہ‘ کا کوئی اور کمال ہو نہ ہو یہ اعزاز بہرحال اسے حاصل ہے کہ ابنِ انشا جیسا اداس شاعری کا رسیا، اِسی میں شایع ہونے والی چلبلی تحریروں کے مطالعے کے بعد مزاح نگاری کی جانب راغب ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے شگفتہ ادب کا پردھان بن بیٹھا۔وحشی مارہروی کا ’چاند‘ اگرچہ مکمل طور پر عوامی مزاج کا حامل پرچہ تھا لیکن اس کا دورانیہ بھی نصف صدی کی حدوں کو چھُوتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ محمد دہلوی کا ’قہقہہ‘، ظفراللہ خاں کا ’زعفران‘ اور مشکور حسین یاد کے ’چشمک‘ کا کریڈٹ بھی لاہور ہی کے کھاتے میں جاتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کراچی سے مجید لاہوری کا ’نمکدان‘ سامنے آتا ہے اور مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کرتا ہوا قصۂ پارینہ بن جاتا ہے۔ ضیاء الحق قاسمی کا ’ظرافت‘ اور انور علوی کا ’مزاح پلس‘ بھی روشنیوں کے اسی شہر کے لفظی قمقمے ہیں۔ 1981ء میں مزاح نگاروں کی سر زمین راولپنڈی ، اسلام آبادسے ضمیر جعفری اور کرنل محمد خاں کی ادارت میں ’اُردو پنچ‘ جاری ہوا جو تھوڑی بہت چھب دکھا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔ اسی طرح دہلی اور کراچی سے نکلنے والے شاہد احمد دہلوی کے ’ساقی‘ کے 1945، سرکاری پرچے ’ماہِ نو‘کے 1949، ’علی گڑھ میگزین‘ کے 1953، محمد طفیل کے ’نقوش ‘کے 1959، ’آج کل‘ کے 1974، ’ہم سخن‘ کے 1981، ’لیل و نہار‘ کے 1984، گورنمنٹ کالج کے ’راوی‘ کے 1989،ممتاز راشد لاہوری کے ’خیال و فن‘ کے 2006، قریشی برادران کے ’اُردو ڈائجسٹ‘ کے2012 اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ’کشتِ نو‘ کے 2017 میں نکلنے والے طنز و مزاح نمبرز بھی اسی حسین رُخ کا غمزہ و غازہ ہیں۔ اس سارے منظرنامے سے آگاہی کے باوجود ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ برِ صغیر میں مسکراہٹوں کے فروغ، ہنسی کے نکھار اور قہقہوں کے تسلسل کے لیے اب تک جس استقامت اور متانت کا مظاہرہ جناب مصطفیٰ کمال کے چوّن سالہ ’’شگوفہ‘‘ نے کیا ہے، بلا شبہ وہ بے مثل بھی ہے اور بیش بہا بھی۔ جس طرح پاکستان میںپطرس، منٹو، شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی، مجید لاہوری، چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق،شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خاں، مشفق خواجہ، سید ضمیر جعفری، سید محمد جعفری، ایم آر کیانی، انور مسعود، افضل علوی، عطاء الحق قاسمی، مظفر بخاری، ضیا ساجد، کرنل اشفاق، صولت رضا، سرفراز شاہد، اطہر شاہ جیدی، انعام الحق جاوید، حسین احمد شیرازی، انور علوی، اور نئے لوگوں میں راقم سمیت، یونس بٹ، عباس برمانی، ایس ایم معین، شجاع الدین غوری، ماسٹر الطاف، ذوالفقار چیمہ، مسرت چیمہ، تنویر حسین، عطا اللہ عالی، محسن مگھیانہ، کبیر خاں، وحیدالرحمن خان، اختر حسین شیخ، ابوالفرح ہمایوں،حسین کاشف، سلیمان ڈار،جاوید اصغر، گل نوخیز اختر، شعیب ودود، نشاط یاسمین خاں، مختار پارس، خالد مسعود، بدر منیر، ذوالفقار علی، زاہد فخری، عزیز فیصل، سعید اقبال سعدی، سلمان گیلانی، محمد اسلام، طاہر شہیر، ناصر محمود ملک، عابد معز، مرلی چوہان، خالد عرفان، اکرم سرا، امجد چشتی، محمد کلیم، محمد عارف، فاخرہ نورین، ذوالفقار زلفی، شاہد ظہیر سید، علی رضا احمد، عابد محمود اور کرن خان وغیرہ نے اُردو مزاح میں کسی طور سرسراہٹ پیدا کیے رکھی۔ مزاح کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اکثر بھارت میں تخلیق ہونے والے مزاح کی بابت پوچھتے ہیں۔ تو صاحبو سنیے!اُس طرف بھی فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، کرشن چندر، ابراہیم جلیس،خواجہ عبدالغفور، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، دلیپ سنگھ، بھارت چند کھنہ، احمد جمال پاشا کے ساتھ ساتھ آندھرا پردیش کے معروف بیوروکریٹ جناب نریندرا لوتھر (وفات: ۱۹ جنوری ۲۰۲۱ئ) جو زندہ دلانِ حیدرآباد تحریک و تنظیم کے صدر بھی رہے۔ وہ اہلِ حیدر آباد کی زندہ دلی کو تابندہ و توانا رکھنے کا بہت بڑا محرک تھے۔ وہ آخر دم تک اُردو ادب، بالخصوص طنزومزاح کے فروغ نیز ’’شگوفہ‘‘ کی معانت میں پیش پیش رہے۔ انھوں نے حیدر آباد میں 1985ء میں عالمی طنزو مزاح کانفرنس بھی منعقد کرائی، جس میں چودہ ہندوستانی اور سات بین الاقوامی زبانوں کے مزاح نگار شامل ہوئے۔ پاکستان سے سید ضمیر جعفری اور عطاء الحق قاسمی نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں زندہ دلی کے سب سے بڑے ترجمان ’شگوفہ‘ کو تقویت بخشنے اور انھی صفحات سے اعتماد پکڑنے والوں میں تخلص بھوپالی، مختار ٹونکی،پرویز یداللہ مہدی،مسیح انجم، باقر مہدی، نامی انصاری، الیاس شوقی، سلیمان خطیب، منظور وقار، نصرت ظہیر، فیاض احمد فیضی، جاوید نہال ہاشمی، منظور الامین، ڈاکٹر محمد مجتبیٰ احمد، طالب خوندمیری، رؤف خوشتر، ضمیر حسن دہلوی، شیخ رحمن اکولوی، شفیق خاں ملیر کوٹلوی، اسد رضا، زنفر کھوکھر، کے این واصف، محمد رفیع انصاری، ضیا جعفر، عامر مجیبی، ڈاکٹر عباس متقی، اقبال شیدائی، رضوان رضوی، محمد شبیر پٹیل،انور قمر، ڈاکٹر محبوب حسن ، بابو آر کے وغیرہ بھی شامل تھے۔ اسی طرح خواتین مزاح نگاروں میں گویم مشکل، انیس بیس، جو مژگاں اٹھائیے، مجھے کچھ کہنا ہے، کی مصنفہ اورحید’’رآباد کی مزاح نگار خواتین‘‘ کی مولفہ ڈاکٹر حبیب ضیا، شفیقہ فرحت، ڈاکٹر بانو سرتاج، ’ماشاللہ‘ اور ’بہرکیف‘ کی خالق ڈاکٹر حلیمہ فردوس، رفیعہ نوشین، فرزانہ فرح، فریدہ سحر، عذرا نقوی، سعدیہ مشتاق، نسیمہ تراب الحسن، لکشمی دیوی راج، ڈاکٹر حمیرا سعید، ڈاکٹر ثریا شمیم، عمرانہ خانم اور خنسا خاں وغیرہ نے بھی اس لطیف شعبے میں خوب نام پیدا کیا۔مزاحیہ شاعری میں رشید قریشی، برق آشیانوی، غوث خواہ مخواہ، گڑ بڑ حیدربادی، ہنس مُکھ حیدرآبادی، اسرار جامعی، مختار یوسفی، کرشن پرویز، اقبال شانہ، ہنس مکھ حیدر آبادی، نجیب احمد نجیب، ناظر خیامی، شباب للت، پاگل عادل آبادی، احمد علوی، آزاد بھوپالی، شوکت جمال، نٹ کھٹ عظیم آبادی، ڈاکٹر ظفر کمالی، محمد توحید الحق، شکیل سہسرامی، مسرور شاہ جہاں پوری، فیروز راغب، اسماعیل ظریف، بوگس حیدرآبادی، مضطر مجاز، رضا نقوی واہی، پاپولر میرٹھی، اقبال شانہ، علیم خاں فلکی، سگار لکھنوی، بے باک جوگی، تمیز احمد پرواز، شاہد ساگری، اسلم عمادی، سندر مالیگانوی، عظیم احمد نجیب آبادی، چچا پالموری، پھوقل مدراسی، مظلوم بہاری اور فیض رتلامی پیش پیش رہے۔ آخری بات یہ کہ جناب مصطفی کمال جو شگوفہ چھوڑنے اور شگوفہ کھلانے کا فرق بخوبی جانتے ہیں، اب زندگی کی نویں دہائی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس وقت انھیں مالی مسائل کے ساتھ،پرنٹ میڈیا پہ زوال، مزاح نگاری کے فقدان کا بھی سامنا ہے۔ ایسے میں ہم ان کی اب تک کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ان کی سلامتی و استقامت کی دعا ہی کر سکتے ہیں!!!(ختم شد)